پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رضا حیات ہراج نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اچھا فیصلہ دیا ہے حکومت کو اسے تسلیم کرنا چاہیے، یہ الیکشن کمیشن کیخلاف بڑی چارج شیٹ ہوسکتی ہے۔ جب کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ فیصلے کے بعد اب الیکشن کمیشن کا کوئی جواز نہیں رہتا، موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو استعفیٰ دینا چاہیے۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے رضا حیات ہراج نے کہا کہ 13 رکنی بینچ میں سے دو ججز (جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر) نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ باقی ججز نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جن لوگوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی لکھا وہ تحریک انصاف کے رکن ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ 11 ججوں نے فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انتخابی نشان والے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی ۔ اس کے علاوہ 8 ججز نے کہا کہ ان ارکان کو پی ٹی آئی سمجھا جائے، جب کہ 3 ججز نے کہا کہ آدھے کو پی ٹی آئی اور آدھے کو سنی اتحاد کونسل سمجھا جائے۔ اب اگر کوئی اپنا ذاتی نقطہ نظر پیش کرتا ہے تو میرے خیال میں یہ مناسب نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ سادہ الفاظ میں، 4 حکم ناموں کا ابہام ختم
رضا حیات ہراج نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اچھا فیصلہ آیا اور جب تفصیلی فیصلہ آئے گا تو مجھے لگتا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف ایک بڑی چارج شیٹ ہوگا، کیونکہ 11 ججوں نے الیکشن کمیشن پر اعتماد کی کمی یا ناقص کام کا عندیہ دیا۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق ہے، اور یہ فیصلہ عوام کے مینڈیٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوا۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سیاسی حریف اور غیر آئینی طور پر مخصوص نشستیں پانے والے اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی اراکین کو مجبور کیا کہ وہ سنی اتحاد جوائن کریں، الیکشن کمیشن کوغیرقانونی حرکت سے منع کیا تھا، جب کہ پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ بھی خلاف آئین تھا۔
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ موجودہ الیکشن کمیشن مکمل ناکام ہوچکا ہے، اب الیکشن کمیشن کا کوئی جواز نہیں رہتا، موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو استعفیٰ دینا چاہیے۔
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ راجہ خالد نے کہا کہ دو باتیں یہ ہیں کہ عدالتیں قانون اور آئین کے مطابق انصاف کرتی ہیں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم قانون سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں تو یہ جرگہ ہوگا جس کے پاس قانون اور قواعد نہیں ہوتے۔
انھوں نے کہا کہ جب آپ کے ملک میں حکومت اور حکمرانی ہو تو آپ کو اس کے ساتھ چلنا چاہیے۔ حلف نامہ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم تحریک انصاف کے ہیں، اکثریت کہتی ہے کہ ہم سنی اتحاد کونسل کے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دینے کی مخالفت کرنے والے 5 ججز میں سے کوئی بھی چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ جب کہ باقی 8 میں سے چار ایسے ہیں جنہیں چیف جسٹس بننا ہے۔ حکومت کی ممکنہ ترمیم سے یہ بھی خدشہ تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مزید وقت مل جائے لیکن سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے کے بعد آئین میں ترمیم کے لیے حکومت کے پاس 2/3 اکثریت نہیں ہوگی، ان کے پاس سادہ قانون سازی کے لیے اکثریت ہے۔
راجہ خالد کی بات پر رد عمل دیتے ہوئے لیگی رکن قومی اسمبلی رضا حیات ہراج نے کہا کہ کس نے کہا کہ حکومت کو ترمیم کی ضرورت ہے، آپ کو بتاؤں کہ چیف جسٹس کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی قسم کی توسیع نہیں لیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ خدا کے واسطے پاکستان کو سوشل میڈیا پر نہ چلائیں، حکومت کسی قسم کی ترمیم کا ارادہ نہیں رکھتی۔