سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز مخصوص نشستوں کے معاملے پر اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے پانچ آرڈر شیٹس جاری کی گئیں اور اس وجہ سے کئی لوگوں کو فیصلہ سمجھنے میں مشکل پیش آئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جج صاحبان کے فیصلے 4 گروپوں میں تقسیم ہیں۔
آرڈر آف دی کورٹ کے نام سے جاری حکم نامہ عدالت کا مجموعی حکم ہے، جس میں شروع میں لکھا ہے سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں کا فیصلہ 8 ججوں کی اکثریت نے کردیا ہے۔
دوسرا حکم نامہ 8 جج صاحبان کی طرف سے جاری ہوا۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، اور جسٹس عرفان سعادت کے اس حکم نامے کے نتیجے میں مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو ملنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ یہی سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ ہے اور اسی پر عمل ہوگا۔ اس کی مزید تفصیل نیچے ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس جمال مندوخیل نے مل کر ایک الگ حکم نامہ جاری کیا۔ اس تیسرے حکم نامے میں بھی مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے حق سے انکار نہیں کیا گیا اور پی ٹی آئی کو پارلیمانی جماعت بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ تاہم یہ نشستیں بنا مانگے پی ٹی آئی کو دینے کی مخالفت کی گئی ہے۔ اس کی مزید تفصیل بھی نیچے ہے۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟
تمام حکم ناموں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں۔
پہلے تین حکم ناموں میں پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت تسلیم کیا گیا۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر کے مختصر آرڈر میں اس پر بحث نہیں کی گئی۔
تین حکم ناموں میں پی ٹی آئی کو نشستیں دینے پر اختلاف ہے۔
جمعہ کے روز سپریم کورٹ کے وہ فیصلے جنہوں نے اقتدار کے ایوانوں کو ہلا دیا
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل کے حکم نامے میں اس بات کی حمایت کی گئی ہے کہ مخصوص نشستیں دوبارہ تقسیم ہونی چاہئیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے (الف) پی ٹی آئی نے عدالت سے رجوع نہیں کیا، (ب)، جن اراکین نے کاغذات نامزدگی میں خود کو آزاد ظاہر کیا تھا وہ آزاد ہی تصور ہوں گے، اور (ج) جن اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی ہے انہیں پی ٹی آئی کا رکن تسلیم نہ کیا جائے۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی سیاسی جماعت کی سہولت کاری نہ کی جائے۔
جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر کے فیصلے میں چونکہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے اور سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے درخواستیں مسترد کی گئی ہیں لہذا ان دو جج صاحبان کی رائے میں نہ تو سنی اتحاد کونسل اور نہ ہی پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حقدار ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئندہ ہفتےکسی بینچ کا حصہ نہیں ہوں گے، ذرائع
جسٹس یحیٰ آفریدی کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو احکامات دے کر نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کی مخالفت کی گئی ہے۔ لہذا یہ فیصلہ بھی پی ٹی آئی کے حق میں نہیں۔
چونکہ ججوں کی زیادہ تعداد یعنی 8 ، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے حق میں ہے لہذا فیصلہ یہی ہے۔