گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر کراچی کے مشہور ساحل ”ہاکس بے“ کی متعدد ویڈیوز زیرِ گردش ہیں، جن میں بپھرے سمندر کا پانی پورا ساحل اور ہٹس کو پار کرکے سڑک تک آرہا ہے۔
اس طرح کی ویڈیوز عموماً ہر سال جون کے آخر، جولائی اور اگست میں سامنے آتی ہیں، انتظامیہ کی جانب سے ہاکس بے کو سیل کردیا جاتا ہے اور سمندر میں نہانے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے، اس کے باوجود کئی منچلے اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔
ہاکس بے دراصل کراچی سے کئی کلومیٹر دور ایک پُرسکون ساحلی مقام ہے، جہاں تفریح کے لیے ہٹ بھی دستیاب ہیں۔
یہ مقام بھی کئی حصوں پر مشتمل ہے جن میں نیلم پوائنٹ اور پیراڈائز پوائنٹ زیادہ مشہور ہیں۔
ہاکس بے کی ساحلی پٹی منوڑہ سے شروع اور نتھیاگلی پوائنٹ پر اختتام ہوتی ہے، جس سے پہلے سینڈزپٹ، ٹرٹل بیچ، کاکا ولیج، سونیہرا بیچ، فرنچ بیچ آتے ہیں۔۔
لال بکھر میں لشکری گوٹھ، سنگھار گوٹھ، محب علی گوٹھ، رمضان گوٹھ اور فقیر محمد گوٹھ شامل ہیں۔
ان تمام گوٹھ کے رہائشی ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
پوری دنیا سے سبز کچھوے انڈے دینے کیلئے ہاکس بے آتے ہیں اور ان سبز کچھوؤں کی پرورش کی جگہ ٹرٹل بیچ کے نام سے مشہور ہے۔
ہاکس بے کا سمندر عموماً جولائی اور اگست میں بپھر جاتا ہے، اس کی اونچی لہریں ساحل پر موجود ہٹس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور پانی سڑکوں تک ایسے پہنچتا ہے گویا یہی ساحل ہو۔
سمندر کی اس حالت کو ”ہائی ٹائیڈ“ کہا جاتا ہے، جسے عام زبان میں ”سمندر کا چڑھنا“ کہتے ہیں۔
عام دنوں میں تو رات میں سمندر کا پانی چڑھتا ہی ہے، جو چاند کی کشش ثقل کے باعث ہوتا ہے، لیکن جولائی اور اگست میں سمندر کا بپھرنا مون سون ہواؤں کے باعث ہوتا ہے۔
پاکستان کا سمندر بحیرہ عرب میں شامل ہے، اور بحیرہ عرب میں اونچی لہروں کی وجہ دو مضبوط سمندری دھارے ہیں، جن میں پہلاجنوب مغربی اور شمال مشرقی مون سون کا بہاؤ اور دوسرا مون سون کے موسم میں صومالی کرنٹ ہے۔
خطے میں موسمی مون سون ہوائیں سمندری بہاؤ کو متاثر کرتی ہیں۔ جنوب مغربی مون سون مغربی ساحل پر بھاری بارش لاتا ہے جو سمندری حرکیات کو متاثر کر سکتا ہے۔
کیونکہ ہاکس بے کا ساحل ایک طویل کھلا علاقہ ہے، اس لیے سمندری ہوا کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی کہ وہ آہستہ ہوسکے اور اسی وجہ سے تیز ہوائیں اونچی لہروں کا باعث بنتی ہیں۔
لیکن اس میں سب سے اہم کردار موسمیاتی تبدیلی ادا کر رہی ہے، گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشئیرز پگھل رہے ہیں جس سے سمندری پانی کی سطح میں اضافہ ہورہا ہے اور سمندر اپنی جگہ واپس لینے کی کوشش کر رہا ہے۔