فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے ماہرین نے پاکستان میں ٹیکسوں میں حالیہ تبدیلیوں، خاص طور پر پہلے سے مشکلات کا شکار صحت کی دیکھ بھال کے شعبے پر ٹیکسوں کے اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ماہرین کا استدلال ہے کہ ٹیکسوں میں اضافے اور تبدیلیوں سے مذکورہ شعبے پر بوجھ پڑے گا اور معیاری صحت کی دیکھ بھال تک عوام کی رسائی متاثر ہو جائے گی۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین توقیر الحق نے آج نیوز پر نشر ہونے والے ایک پروگرام کے دوران کہا، ’یہ میں نے اپنے 35 سالہ کیرئیر میں سب سے مشکل بجٹ دیکھا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دواسازی کے نقطہ نظر سے، لوگ جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ علاج پہلے ہی مہنگا ہو رہا ہے۔ صنعت پر کئی ٹیکس لگائے گئے ہیں، اور بالآخر، یہ لوگ ہی ادا کریں گے‘۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں اضافہ اور ایک کروڑ روپے سے زائد تنخواہوں پر ٹیکسوں پر اضافی 10 فیصد سرچارج اس شعبے کو مزید دباؤ میں ڈالے گا۔
توقیر الحق نے کہا، ’پہلے ہی تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا تھا، لیکن اب، انہوں نے ایک کروڑ روپے سے زائد تنخواہوں پر ٹیکس پر 10 فیصد سرچارج لگا دیا ہے جو فنانس بل کا حصہ بھی نہیں تھا۔‘
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت 10 کروڑ روپے سالانہ کمانے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لائے۔
ہیلتھ کیئر ڈیوائسز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایچ ڈی اے پی) کے وائس چیئرمین عدنان صدیقی نے صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں طبی آلات اور تشخیص کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ ’اب تمام تشخیصی کٹس پر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے‘، اس سے طبی ٹیسٹوں اور تشخیصی کٹس کی قیمت میں تقریباً 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوگا۔
توقیر الحق نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ٹیکس میں تبدیلیاں برآمدی صنعت کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں، جو سرمایہ کاری کے لیے ایک اہم شعبہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ آپ (حکومت) نے برآمدی صنعت کی مکمل حوصلہ شکنی کی ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ برآمدات پر نئے ٹیکس سے 300 ملین ڈالر کی ادویات کی برآمدات آدھی رہ جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ برآمدات پر مکمل اور حتمی ایک فیصد ٹیکس تھا۔ لیکن اب 29 فیصد انکم ٹیکس اور مزید 10 فیصد سپر ٹیکس بھی لگا دیا گیا ہے۔ کون سرمایہ کاری کرے گا؟
صنعتی ماہرین نے مشورہ دیا کہ حکومت کو موجودہ ٹیکس دہندگان پر ٹیکس بڑھانے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ موجودہ طریقہ کار ایک بڑی غیر دستاویزی معیشت اور اسمگلنگ کا باعث بن سکتا ہے۔
تاہم، توقیر الحق نے تسلیم کیا کہ غیر ضروری ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے سے ادویات کی رسائی میں بہتری آئی ہے اور مارکیٹ میں جعلی ادویات کم ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈی ریگولیشن، بہتر حجم اور کاروبار کے بعد صنعت برآمدات کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ’لیکن برآمدات پر نئے ٹیکس صنعت کے لیے ایک دھچکا ہیں۔‘
پاکستان کے مالی سال 25-2024 کے لیے حال ہی میں طے شدہ بجٹ کو معیشت کے تقریباً تمام شعبوں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ اسلام آباد اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات کو زیادہ ٹیکس لگا کر متوازن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بہت سے تجزیہ کاروں اور ماہرین نے اسے ایک ایسا بجٹ قرار دیا ہے جو صرف نقدی پر مبنی لین دین کی حوصلہ افزائی کرے گا اور معیشت سست روی کا شکار ہوگی، جو پہلے ہی جنوبی ایشیا میں سب سے سست رفتار سے بڑھ رہی ہے۔