اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت میں بشریٰ بی بی کے وکیل نے درخواستوں کو جرمانہ کے ساتھ مسترد کرنے کی استدعا کردی۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی جبکہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے اپیلوں پر سماعت کی۔
بشریٰ بی بی کے وکیل خالد یوسف چوہدری اور خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
بشریٰ بی بی کے سابق خاوند خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکلاء اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔
خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج کے میرے دلائل بالجبر ہوں گے، ایک قیدی کو عدالت کی جانب سے ایسی سہولیات کیسے دی جا سکتی ہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جنرل ایڈجرنمنٹ کو ختم کر دیا گیا، لیکن ہر عام آدمی کے کیس میں یہ اسپیشل سہولیات کیوں نہیں ملتیں؟ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیسز میں فون پر کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارے کیسز میں یہ آرڈر ہو چکا؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا ہمارے پاس گالم گلوج بریگیڈ نہیں؟ ہم پروپیگنڈا نہیں کرتے؟ یہ عام آدمی کا سوال ہے؟ میری تاریخ ہے میں ماہ محرم میں بھی بہت کم کام کرتا ہوں، یہ مہینہ تقدس اور افسوس کا مہینہ ہے، جو نواسے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا کیا وہ بھلایا جا سکتا ہے؟ میں نے اس افسوس میں صرف دس دن کی مہلت مانگی۔
وکیل زاہد آصف نے مزید بتایا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ میرے دلی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنرل التوا ملا، یہ کیس میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، کیس آتے جاتے رہتے ہیں، مجھے کہا گیا جج افضل مجوکا فون پر ہدایات لیتے رہے تو ہمارے کیسز میں ایسا کیوں نہیں ہوا؟ لوگ بہت مایوس ہیں مگر مجھے کوئی مایوسی نہیں، میں ایسے لوگوں میں سے نہیں کہ آپ حق میں فیصلہ کریں تو خوشی منائیں خلاف آئے تو احتجاج کروں، میں ویڈیو بنا کر پروپیگنڈا نہیں کروں گا، میں عدالت کی بے بسی پر بھی بات کروں گا، جناب کی عدالت میں بھی شور شرابہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف جج کے چیمبر میں وکلا کی آواز بلند ہونے پر 7 اے ٹی اے کا پرچہ بھگتا، یہ ایک مخصوص ٹولہ ہے جو چیف جسٹس پاکستان سمیت دیگر کی ٹرولنگ کرتا ہے تو عدالتیں کیوں کچھ نہیں کرتیں؟ اگر کوئی صحافی یا وکیل ایسا کچھ کر دے تو توہین عدالت لگ جاتی ہے، اسی طرح جج ہمایوں دلاور کے ساتھ کھلی عدالت میں گالم گلوچ کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ میرے قابل عزت ججز کا قلم بھی ان گالم گلوچ بریگیڈ کے خلاف چلے گا جنہوں نے آپ کی عدالت، ہمایوں دلاور، شاہ رخ ارجمند کی عدالت میں بدتمیزی کی، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایا کہ یہ دو سال سے ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، ہم پر دہشت گردی کے پرچے ہوئے ہیں۔
خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ مارشل لا نہ لگ جائے اس لیے جسٹس عمر عطا بندیال نے رات کو عدالت کھولی، ان کے ساتھ کیاہوا، اطہر من اللہ کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا سلمان صفدر نے یہاں دھمکی آمیز دلائل نہیں دیے؟ میری تربیت میں بدتمیزی، گالم گلوچ نہیں، جسے میں جانتا ہوں اس سے اجنبی نہیں بن جاتا، وکیل کا کام ڈنڈا اور اسلحہ اٹھانا نہیں وکیل کا کام ایمانداری کے ساتھ کیس لڑنا ہے۔
خاور مانیکا کے وکیل نے مزید کہا کہ شبلی فراز نے میرے ایسوسی ایٹ کے بارے میں دھمکی آمیز الفاظ استعمال کیے، مجھے اس کی امید نہیں تھی، شبلی فراز صاحب آپ کو ذاتی عداوت ہے تو آئیں مجھے ماریں، میرے ایسوسی ایٹ کو کیوں کہہ رہے ہیں؟
وکیل نے کہا کہ ہم وکیل آپ کا ایندھن کیوں بنیں؟ آپ کی (ن) لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی سے دشمنی ہے تو باہر بات کریں، پہلے مولانا فضل الرحمن کو القابات دیے، اب ان کے ساتھ حکومت کو رخصت کرنے کے لیے پلاننگ کر رہے ہیں، مجھے کہا گیا شبلی فراز کے خلاف تھانے میں درخواست دیں لیکن میں کیوں دوں؟ دلائل کے لیے ٹائم مرضی سے رکھوں گا، میں ڈائریکشن کو مدنظر نہیں رکھتا۔
اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ نہیں ٹائم کو مدنظر رکھنا پڑے گا، جس پر وکیل نے کہا کہ میں دلائل اپنی مرضی سے دوں گا، ڈائریکشن کا خیال دوسری پارٹی رکھتی جس کے بندے اندر ہیں، جب یہ لوگ پی ٹی آئی میں پیدا نہیں ہوئے تھے تب بھی میرے بھائی پی ٹی آئی میں تھے، میرے بھائی مجھے کہتے ہیں ہم پی ٹی آئی کے ہیں آپ یہ کیس کیوں لڑ رہے ہیں؟ ہو سکتا ہے میں نے بھی پی ٹی آئی کے دھرنوں میں شرکت کی ہو۔
اس پر جج افضل مجوکا نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ تو خبر ہے، زاہد آصف ایڈووکیٹ نے مزید بتایا کہ اگر ریلیف نہیں ملے گا تو کیا ہم ججز کو ٹرول کرنا شروع کردیں گے، چند دنوں ، چند ماہ پہلے پی ٹی آئی میں لوگ میرے معاون وکیل کے ساتھ ذاتیات پر کیوں اتر آئے؟ خاور مانیکا تشدد کیس میں مجھے اپروچ کیا گیا مگر میں نے انکار کردیا کہ دوسری طرف میرے وکلا ہیں، اسلحہ ، ڈنڈا اور لڑائیوں سے مسئلے کا حل نہیں ملے گا، عثمان ریاض گل کو دیکھتا ہوں تو لگتا کہ ریسلر ہیں مگر وہ بہت پیارے ہیں، سلمان صفدر صاحب سے یہ امید نہیں تھی کہ ان کی طرف سے ایسا ہوگا۔
وکیل زاہد آصف چوہدری کا کہنا تھا کہ سلمان صفدر نے کہا کہ باہر گڑھے کھودے ہوئے ہیں، جو اپنے لیے گڑھا خود کھودے ان کے لیے کھودنے کی ضرورت نہیں ہے، کس نے کہا تھا کہ جی ایچ کیو پر حملہ کریں؟ جناح ہاؤس پر حملہ کردیا، مجھے میرا ایک مؤکل کہتا ہے کہ میں عدالت کا گیٹ توڑ دوں؟ مؤکل نے کہا کہ کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں تو ان کو کچھ کہا نہیں جاتا۔
بعد ازاں زاہد آصف چوہدری ایڈوکیٹ نے باقاعدہ کیس پر اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔
انہوں نے کہا کہ عدت کے حوالے سے 1992 کے کیس کا حوالہ دیا گیا جس میں عدت کے 39 دن بتائے گئے، ایک سوال تھا کہ پہلی شکایت کے بعد دوسری شکایت کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ تو ہم نے پہلی شکایت درج نہیں کرائی اور وہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے واپس لے لی گئی تھی، مسلم فیملی لا میں صرف 90 دن بتایا گیا اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
وکیل خاور مانیکا نے بتایا کہ 40 سال کے بعد خواتین کی ماہواری رک جانے کا ذکر ہے مگر میڈیکلی طور پر 35 سال بھی ممکن ہے، اسلامی نظریاتی کونسل ، فیڈرل شریعت کونسل اور اسلامی اسکالر بھی موجود ہیں، میڈیکل ایکسپرٹ موجود ہیں ، اپنی مرضی کے ایکسپرٹس سے رجوع کر سکتے ہیں، دو درخواستیں دی ہیں وہ اس پر دلائل دینا چاہتے ہیں یا نہیں؟
اس پر جج نے مکالمہ کیا کہ آپ دلائل دیں، بعد میں ان کو موقع دیں گے، بشریٰ بی بی کے وکیل نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے تیار ہیں۔
خاور مانیکا کے وکیل نے کہا کہ قانون اس عدالت کو اجازت دیتا ہے کہ آپ ایڈیشنل شواہد مانگ سکتے ہیں ، ان درخواستوں پر میرے معاون وکیل اقبال کاکڑ دلائل دیں گے ، مجھے حیرت ہوئی، سلمان صفدر صاحب نے میرے لیے بھاگ گئے کا لفظ استعمال کیا۔
جج افضل مجوکا نے بتایا کہ ہم نے ان کو کہہ دیا تھا تو انہوں وہ لفظ واپس لے لیا تھا۔
بعد ازاں زاہد آصف چوہدری کے معاون وکیل اقبال کاکڑ نے دو درخواستوں پر دلائل کا آغاز کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ میڈیا کے ذریعے ایک غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے کہ عورتوں کی شادی نہیں ہوگی ، ہائی پروفائل کیسز میں میڈیا دیکھتا ہے کہ عوام کا رجحان کس سائیڈ پر ہے ، یہ ادراک غلط ہے کہ چوری ، ڈاکا یا تشدد صرف مرد کرتے ہیں ، میڈیا کسی بھی واقعے کو سنسنی خیز طور پر پھیلاتا ہے ، فیصلہ ہونے سے پہلے میڈیا پر ٹرائل آجاتا ہے ، یہ کیس بھی شروع سے میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔
معاون وکیل کا کہنا تھا کہ میڈیا ہائپ اتنی ہو جاتی ہے کہ میڈیا فیصلے کے اوپر اثر انداز ہوجاتا ہے ، میڈیا ٹرائلز کے حوالے سے زاہد آصف کے معاون وکیل نے مختلف موویز کا بھی ذکر کیا، جن وکلا کے سامنے میں کھڑا نہیں ہوسکتا وہ اس کیس سے پہلے کیا تھے؟
زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس عدالت نے ججمنٹس کے حوالے دے کر ان کی مدد کی ، ہم نے آپ پر اعتراض نہیں کیا ، میرے مؤکل کا نقصان ہوا اسے میڈیا نے ظالم قرار دے دیا۔
اس پر ان کے معاون وکیل اقبال کاکڑ نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ میڈیکل بورڈ بنایا جائے، ہوسکتا ہے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ ان کے حق میں آجائے ، مجھے امید ہے کہ دوسری پارٹی کو میڈیکل بورڈ کی تشکیل پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ، 39 دن کے حوالے سے ججمنٹ موجود ہے، اس کے بعد 90 اور 100 دن کی ججمنٹ بھی موجود ہے۔
معاون وکیل نے بتایا کہ عدت پر علما سے رائے لی جائے، ہم کہتے ہیں عدت کی مدت 90 دن ہے، جب تک علما کا موقف نہ آجائے ہماری درخواست ہے کہ اس کیس میں مزید سماعت نہ کی جائے۔
خاور مانیکا کے وکلا نے کیس پر مزید کارروائی آگے نہ بڑھانے کی استدعا کرتے ہوئے دلائل مکمل کرلیے۔
بعد ازاں خاور مانیکا کی درخواستوں پر بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کردیا۔
عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہماری ٹرائل کے دوران یہ خواہش تھی اور جرح کے دوران اس کا ذکر بھی ہے، میں ڈاکٹر نہیں لیکن مجھے مینوپاز کا علم ہے، اس موقع پر ان درخواستوں کی کوئی ضرورت نہیں، اضافی ثبوت کے حوالے سے اپیکس کورٹس کے فیصلے موجود ہیں۔
عثمان ریاض گل نے اضافی ثبوت کے حوالے سے عمر شیخ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پراسیکیوشن کو کوئی کمی پوری کرنے کے لیے اضافی ثبوت کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ان درخواستوں پر فیصلہ کرتے ہوئے شکایت کنندہ اور ان کے وکلا کا کنڈکٹ بھی دیکھنا ہو گا، کیس کو التوا میں رکھنے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں، اب یہ عدالت کو کام سے روکنے کے لیے تیسری کوشش کی جا رہی ہے۔
ساتھ ہی عثمان ریاض گل نے درخواستوں کو جرمانہ کے ساتھ مسترد کرنے کی استدعا کر دی۔
اس موقع پر خاور مانیکا کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میری ایک بھی التوا کی درخواست دکھا دیں، میں ان کی جانب سے دی گئی دھمکیاں بتاؤں گا، میں پہلی اپیل کے وقت وکیل نہیں تھا، اس کے بارے میں نہیں کہہ سکتا کہ کیوں یہ درخواستیں دائر نہیں ہوئیں، میرا چین کا کنفرم ٹکٹ تھا میں نہیں گیا، اگر اپیل کنندگان اپنے گواہ لانا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی بھی اعتراض نہیں۔
اسی کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر جج افخل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کی ہدایات ہیں کہ تیس دن کے اندر فیصلہ کرنا ہے، اس میں ورکنگ ڈیز کا ذکر نہیں۔
بعد ازاں خاور مانیکا کے وکیل نے کہا کہ یہ کوئی عام کیس نہیں نہیں ، ہائی پروفائل کیس ہے کہ سیاسی شخصیت اس میں سزا یافتہ ہیں، میں اس عدالت سے توقع کرتا ہوں کہ عدالت پریشر کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلام کے مطابق فیصلہ کرے گی، میں اگر یہ کہنا شروع کر دوں کل آپ نے فیصلہ کرنا ہے یہ کیا ہے کیا پریشر ڈال کے فیصلہ کروانا چا رہے ہیں، یہ سیاسی لوگ اکٹھے کر کے پریس کانفرنس کر کے میڈیا سے پریشر ڈلوا کے فیصلہ کروانا چاہتے، مجھے امید ہے آپ درخواست گزار کے کسی پریشر یا ٹرولنگ کے ڈر سے فیصلہ نہیں کریں گے۔
جج افضل مجوکا نے وکیل زاہد آصف سے استفسار کیا کہ عدالت نے ملزمان کی دونوں چارجز 496 اور 496 بی میں طلبی کی تھی؟ وکیل نے جواب دیا کہ جی دونوں چارجز میں طلبی ہوئی تھی ، 496 بی میں دو گواہان کی ضرورت ہوتی ہے۔
جج نے مزید دریافت کیا کہ کیا عدالت نے ریکارڈ دیکھ کر طلب نہیں کیا تھا؟
وکیل نے بتایا کہ جیل ٹرائل پر اعتراض کیا گیا اور ٹرول بھی کیا گیا ، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ ٹرائل کا آرڈر کردے ، عدالت نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر جیل ٹرائل کا حکم دیا تھا ، عثمان ریاض گل یا ہم سے کسی کو بھی سیکیورٹی تھریٹس نہیں ہیں، ہم آزادانہ طور پر گھوم سکتے ہیں ، آج بھی عمران خان، فضل الرحمن ، آصف زرداری ، شہباز شریف ، نواز شریف سمیت دیگر لیڈروں کو جو تھریٹس ہیں وہ مجھے یا گل صاحب کو نہیں ،حکومت مخالف ہو یا حق میں ہو ، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم کو سیکیورٹی فراہم کرے۔
وکیل زاہد آصف نے مزید کہا کہ ہم پر تاخیری حربے استعمال کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے ،جب سے اس عدالت میں کیس آیا دوسری طرف سے تاخیر کی جارہی ہے ، جیل ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ کی اجازت کے بعد شروع ہوا ، ٹرائل کورٹ کے جج نے دو بار اپنے آرڈر میں لکھا کہ اوپن ٹرائل میں کسی بھی شخص کو نہ روکا جائے ، الزام لگایا گیا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے چالان کی کاپیاں نہیں دی گئیں ، الفاظ جھوٹ بول سکتے مگر لکھا ہوا کچھ بھی غلط نہیں ہوسکتا، یہاں آرڈر میں لکھا ہوا کہ کاپیاں تقسیم کی گئیں اگر ان کو ٹرائل کی جلدی پر کوئی اعتراض تھا تو ہائی کورٹ سے کیوں رجوع نہیں کیا گیا؟
انہوں نے بتایا کہ کیس کے 4 گواہ تھے ، 3 دن کا کیس سارا تھا ، ملتان میں ایک کیس چل رہا اس میں 8 گواہ ہیں ، جج صاحب نے کہا کہ 3 دن میں ختم کرنا ہے ، میں نے تو اس جج کو ٹرول نہیں کیا ، اتنا سمجھا کہ جج صاحب نے ٹرائل جلدی مکمل کرنا ہے ، لطیف کے اوپر تو جرح کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ، باقی تین گواہ رہ گئے ، میں نے قتل کے مقدمے کا ٹرائل 7 دن میں مکمل کیا ، میں نے جج کے حکم کی تعمیل کی۔
اس پر جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ میں نے حال ہی میں 4 دن کے اندر ٹرائل مکمل کیا، جس پر وکیل نے مزید کہا کہ ملزمان میں دو دو بار چالان کی کاپیاں تقسیم کی گئیں ، بشریٰ بی بی کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے بار بار طلب کیا گیا وہ پیش نہیں ہوئیں ، میں نے التوا کی درخواست دائر کی، وہ مسترد کردی گئی تو میں آج عدالت کے سامنے پیش ہوں ، دائرہ اختیار کا اعتراض تھا تو اس کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ یا سیشن کورٹ میں اس کو چیلنج نہیں کیا گیا، بار بار اس بات پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ فرد جرم بشریٰ بی بی کی موجودگی میں عائد نہیں کی گئی ، اس کو اگر دیکھیں تو کون بھاگ رہا تھا؟ تاخیری حربے کون استعمال کررہا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ جج صاحب نے کہا کہ بشریٰ بی بی اس وقت کورٹ میں موجود تھیں تو ان کی جانب سے کہا گیا کہ نہیں آئیں ، اس کے بعد عدالت نے جیل حکام سے ریکارڈ طلب کرلیا کہ وہ آئیں تھی یا نہیں، مزید کہا کہ کل سے میرے میمز بھی بنائے جا رہے ہیں۔
وکیل عثمان گل نے کہا کہ آپ کی میمز اس وجہ سے بنائی جا رہی ہیں کہ آپ پریس کانفرنس کے دوران لوڈو کھیل رہے تھے، ٹرائل کورٹ کے 16 جنوری اور 3 فروری کے آرڈرز بتائیں گے کہ ٹرائل کورٹ کے جج مینیجڈ تھے۔
وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ ملزمان کے دستخط موجود ہیں تو یہ کیسے کہہ سکتے کہ چارج فریم غلط ہوا؟
وکیل بشری بی بی کے مطابق 2 فروری کو بریت کی درخواست دائر کی گئی تھی جو ریکارڈ پر موجود ہے ، اس کے بعد جرح ہوئی اور 342 کا بیان رات 9:45 پر ہوا۔
اس موقع پر زاہد آصف نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کیس کی ہسٹری میں نے سامنے رکھ دی ہے ابھی ، اہم کیس ہے لمبے دلائل دینے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت صبح 9:30 تک ملتوی کردی۔
سماعتوں کا احوالیاد رہے کہ رواں ماہ9 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت ملتوی کردی تھی۔
گزشتہ روز ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت کیس میں مرکزی اپیلوں کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کے حکم پر نظرثانی درخواست خارج کردی تھی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سیشن کورٹ کو ایک ماہ کے اندر اپیلوں پر فیصلہ کرنے کا حکم برقرار رکھا، ہائیکورٹ پہلے ہی سیشن کورٹ کو مرکزی اپیلوں پر ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کرچکی ہے۔
8 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت کے دوران جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم اہمیت رکھتا ہے، میں اس کی خلاف ورزی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
واضح رہے کہ 3 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 8 جولائی ملتوی کرتے ہوئے جج افخل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ 12 جولائی تک ہر حال میں فیصلہ سنانا ہے۔
2 جولائی کو وکیل سلمان اکرم راجا نے سزا معطلی کے درخواست مسترد ہونے کے فیصلے پر جزوی دلائل دیے تھے۔
واضح رہے کہ 27 جون کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے سابق وزیر اعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست مسترد کردی تھی۔
13 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر 10 دن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی تھی، ساتھ ہی عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس میں مرکزی اپیلوں پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم بھی دے دیا۔
عدت نکاح کیس میں عمران خان و بشریٰ بی بی کو سزا3 فروری کو سول عدالت نے سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عدت نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔
31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کے لیے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
قبل ازیں 18 جنوری کو دوران عدت نکاح کیس کے خلاف عمران خان کی درخواست پر کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
تاہم یہ واضح رہے کہ 16 جنوری کو عدت نکاح کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی جاچکی تھی۔
15 جنوری کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بھی غیر شرعی نکاح کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، بشریٰ بی بی کی درخواست پر 17 جنوری کو کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
عدت نکاح کیس کے اندراج کا پسِ منظرواضح رہے کہ گزشتہ سال 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔
خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔
درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔
11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔