بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت کے ساتھ نئے بیل آؤٹ پیکج پر بات چیت جاری ہے جبکہ عالمی قرض دہندہ نے زرعی آمدنی پر 45 فیصد ٹیکس کی تجویز پیش کی ہے۔
ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے ایک معیار مقرر کیا ہے جس کے تحت ملک میں صوبائی حکومتوں کو اپنے قوانین میں ترمیم کرنے اور زرعی آمدنی پر 45 فیصد تک انکم ٹیکس کی شرح عائد کرنے کا کہا گیا ہے۔
واضح رہے کہ معیشت کا 24 فیصد حصہ ہونے کے باوجود زرعی شعبہ کل ٹیکس وصولی میں 0.1 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔
آئین کے تحت وفاقی حکومت کو زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے سے منع کیا گیا ہے جو صوبائی حکام کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف نے صوبوں سے غیر تنخواہ دار کاروباری افراد پر لاگو 45 فیصد انکم ٹیکس کی شرح کو اپنانے کے لیے کہہ کر اس آئینی رکاوٹ کو دور کرنے کا راستہ بتایا ہے۔
آئی ایم ایف نے اس تبدیلی کو نافذ کرنے کے لیے صوبائی حکومتوں کے لیے اکتوبر 2024 کی آخری تاریخ مقرر کی ہے۔ اس نے رواں برس اکتوبر تک لائیو اسٹاک سیکٹر کے لیے موجودہ انکم ٹیکس چھوٹ کو ختم کرنے کا بھی کہا ہے۔
آئی ایم ایف نے مزید 1300 ارب کے اضافی ٹیکس کا مطالبہ کردیا
ایک رپورٹ میں، ورلڈ بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان ممکنہ طور پر زرعی شعبے سے 1.22 ٹریلین روپے تک ٹیکس ریونیو حاصل کر سکتا ہے، جو کہ ملک کی مجموعی ملکی پیداوار کا 1 فیصد بنتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی شرط کے تحت چاروں صوبوں کو اپنے زرعی انکم ٹیکس کے نظام میں ترمیم کرنا ہو گی ان کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ فارمنگ کے معاملے میں شرط کے مطابق کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرح لاگو ہوگی۔
آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ صوبائی حکومتیں اکتوبر کے آخر تک لائیو سٹاک کی آمدنی پر دستیاب انکم ٹیکس چھوٹ ختم کر دیں۔