سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر پاکستان تحریک انصاف کوقومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا۔ فیصلے کے مطابق 39 امیدوار تحریک انصاف کے ہیں، باقی41 امیدوار15 روزمیں جماعت واضح کریں گے۔ فیصلہ 8 کے مقابلے میں 5 کے تناسب سے دیا گیا۔ جسٹس یحیی آفریدی سمیت 5 ججز نے پی ٹی آئی کو مختصوص نشستوں کا حقدار قرار دینے کی مخالفت کی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے 17 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی لارجز بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ میں 77 منتازع مخصوص نشستوں پر سماعت تھی۔
جسٹس منصورعلی شاہ ، جسٹس منیب اختر،جسٹس اطہرمن اللہ ،جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس شاہد وحید ، جسٹس حسن اظہررضوی اورجسٹس عرفان سعادت نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کےحق میں فیصلہ دیا۔ فیصلہ منصورعلی شاہ نے لکھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے بارے میں مختصر تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا۔ مختصر تحریری فیصلہ سترہ صحفات پر مشتمل ہے۔ فیصلے میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جسٹس یحیحی آفریدی، جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔ فیصلے میں تحریک انصاف کے قرار دیے گئے 39 ارکان اسمبلی کی فہرست بھی شامل ہے۔
پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اور رہے گی، اکثریتی فیصلہ
فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کےخلاف ہے، تحریک انصاف سیاسی جماعت تھی اورہے، انتخابی نشان نہ ملنےکا مطلب یہ نہیں کہ تمام حقوق ختم ہوگئے، فیصلہ 8کےمقابلے میں5 کے تناسب سے دیا گیا۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابی نشان واپس لینا سیاسی جماعت کوالیکشن سے باہرنہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، کسی بھی سیاسی جماعت سے انتخابی نشان نہیں لیا جا سکتا۔
باقی 41 ارکان 15 دن میں بیان حلفی جمع کراکر سیاسی جماعت کا حصہ بن سکتے ہیں
فیصلے میں پی ٹی آئی خواتین اورغیرمسلموں کی مخصوص نشستوں کی حقدار قرار دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کوقومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشست ملے گی۔
اکثریتی فیصلے میں 39 ارکان کو پی ٹی آئی کا منتخب رکن قومی اسمبلی قراردے دیا گیا، باقی 41 ارکان 15دن میں بیان حلفی جمع کراکر سیاسی جماعت کا حصہ بن سکتے ہیں اور اگر سیاسی جماعت انہیں اپنا رکن قرار دیتی ہے تو یہ نشستیں اس جماعت (یعنی پی ٹی آئی) کی تصور ہوں گی جبکہ فیصلے کا اطلاق صوبائی اسمبلیوں پربھی ہوگا کوئی ابہام ہوتوپی ٹی آئی فیصلے کی تشریح یا وضاحت کیلئے رجوع کرسکتی ہے ۔
فیصلے میں قرار دیا گیا کہ الیکشن کمیشن، پی ٹی آئی کو وضاحت چاہیے توعدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اس کے بعد مخصوص نشستوں کا فیصلہ پارٹی کی جنرل نشستوں کی تعداد کی بنا پر ہوگا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نےاضافی نوٹ پڑھ کرسنایا
جسٹس یحییٰ آفریدی نےاضافی نوٹ میں کہا کہ پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہرکرنے والوں کوآزاد قرار دینا درست نہیں، ان ارکان کوکسی اورجماعت کارکن بھی قرار نہیں دیاجاسکتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں، سنی اتحادکونسل آئین کےمطابق مخصوص نشستیں نہیں لےسکتی۔
انہوں نے اضافی نوٹ میں کہا کہ پی ٹی آئی بطورسیاسی جماعت قانون اورآئین پرپورا اترتی ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس امین الدین نے الگ الگ نوٹ پڑھے۔ چیف جسٹس نے جسٹس جمال مندوخیل کےلکھے آرڈرسے اتفاق کیا۔
مخصوص نشستوں سے متعلق کیس: سپریم کورٹ کے کتنے ججز نے اختلافی نوٹ لکھا
چیف جسٹس اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی۔ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی۔ آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر، اٹارنی جنرل منصور اعوان اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی موجودگی میں فیصلہ سنایا گیا۔
لارجر بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اظہر حسن رضوی شامل تھے۔ اس کے علاوہ جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس امین الدین بھی بینچ کا حصہ تھے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ 5 کے مقابلے میں 8 ججوں کی اکثریت سے سنایا گیا۔ پانچ ججوں نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کردیں۔
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے بارے میں محفوظ تحریری فیصلہ جاری کردیا، مختصر تحریری فیصلہ 17 صحفات پر مشتمل ہے، فیصلے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس امین الدین، جسٹس یحییٰ آفریدی, جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا معاملہ چار حصوں پر تقسیم ہے۔
مخصوص نشستوں پر اکثریتی ججز کا محفوظ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فل بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا مارچ 2024 کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، جسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے،الیکشن کمیشن کا13 مئی کا مخصوص نشستوں کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے،واضح کیا جاتا ہے کہ انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا،
فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے، پی ٹی آئی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں جیتیں، الیکشن کمیشن نے عدالت میں 80 ایم این ایز کی فہرست پیش کی، 80کاغذات نامزدگی میں 39 امیدواروں نے خود کو پی ٹی آئی ڈیکلیئر کیا، یہ 39 امیدوار آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں،باقی 41 امیدوار اس حکم نامے کے 15 دن کے اندراپنی جماعت سے متعلق حلف نامہ دیں،الیکشن کمیشن سات روز میں سیاسی جماعت کو نوٹس دے کہ وہ امیدوار کو کنفرم کرے،سیاسی جماعت 15 روز کے اندر اپنے امیدوار کو کنفرم کرے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسی کنفرم جیتی ہوئی نشست کواس سیاسی جماعت کی سیٹ تصور کیا جائے گا،الیکشن کمیشن ان امیدواروں کی نشست کی فہرست اپنی ویب سائٹ پر سات روز میں آویزاں کرے، اس مرحلے کے بعد جو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں وہ ان کی جیتی ہوئی نشستیں تصور ہوں گی، پی ٹی آئی کو اس نئی تعداد کے بعد مخصوص نشستیں کی حقدار ہو گی، پی ٹی آئی آئی اس فیصلے کے 15 روز میں مخصوص افراد کی فہرست الیکشن کمیشن کو دے، پی ٹی آئی کی لسٹ کے مطابق انہیں جو نشستیں بنتی ہیں وہ دے دی جائیں،پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں مخصوص نشستیں پی ٹِی آئی کو دے دی جائیں، سپریم کورٹ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دے دیا۔
تحریری فیصلے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے، اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی یا کسی رہنما نے آزاد رکن قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں کیا، تاہم اس حقیقت کے پیش نظر درخواستیں انتخابی کارروائی کا تسلسل ہے، عدالت کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دینے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے، آئین کا آرٹیکل 51(1)(ڈی) خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کا ضامن ہے، جن امیدواروں نے کوئی اور ڈیکلیریشن جمع نہیں کرایا وہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں، لہٰذا الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ شامل کرکے مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے، ایسے امیدوار جنہوں نے آزاد یا کسی دوسری جماعت سے وابستگی کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا وہ آزاد تصور ہوں گے، سنی اتحاد کونسل ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے،قومی و صوبائی اسمبلیوں کے آزاد ارکان کو سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کا حق حآصل ہے،اراکین اپنی رضامندی سے سنی اتحاد میں شامل ہوئے۔
فیصلے میں تحریک انصاف کے قرار دیے گئے 39 ارکان اسمبلی کی فہرست بھی شامل ہے، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا معاملہ چار حصوں پر تقسیم کیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 8رکنی بنچ نے اکثریتی فیصلہ جاری کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے الگ اختلافی نوٹ دیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 39 ارکان امجد علی خان ، سلیم رحمان، سہیل سلطان ، بشیرخان جنید اکبر، اسد قیصر، شہرام ترکئی، انور تاج، فضل محمد خان ارباب عامر ایوب، شاندانہ گلزار، اسامہ میلہ، شفقت اعوان، علی افضل ساہی، خرم شہزاد ورک، لطیف کھوسہ، رائے حسن نواز، عامرڈوگر، زین قریشی، رانا فرازنون، صابر قریشی، اویس حیدر جھکڑ اور زرتاج گل تحریک انصاف کے ارکان ہیں۔ جبکہ آزاد ارکان قرار دئیے گئے افراد میں علی محمد خان، شہریار آفریدی ،انیقہ مہدی، احسان اللہ ورک ، بلال اعجاز ، عمیر خان نیازی ، ثناء اللہ خان مستی خیل اسامہ حمزہ ، صاحبزادہ محبوب سلطان ، وقاص اکرم شیخ ،میاں محمد اظہر ، سید رضا علی گیلانی ، جمشید دستی ، خواجہ شیراز شامل ہیں۔
77متنازع مخصوص نشستیں
واضح رہے کہ مجموعی طور پر 77 منتازع مخصوص نشستیں تھی جس میں 22 قومی اور 55 صوبائی نشستیں شامل تھیں۔
کے پی اسمبلی:21 خواتین، 4 اقلیتی نشستیں
کےپی: جے یو آئی (ف) کو 10 نشستیں ملیں
کے پی: ن لیگ، پی پی کو 7،7سیٹیں ملیں
پنجاب اسمبلی: خواتین کی24، اقلتیوں کی 3نشستیں
پنجاب اسمبلی:ن لیگ کو23، دیگر کو 4 نشستیں ملیں
سندھ اسمبلی: پی پی کو 2، ایم کیو ایم کو 1سیٹ ملی
سپریم کورٹ کا کمرہ نمبر ایک کھول دیا گیا
فیصلہ سنانے کے لیے سپریم کورٹ کا کمرہ نمبر ایک کھول دیا گیا، سنی اتحاد کونسل کے اراکین، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور اٹارنی جنرل منصور اعوان کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ فل کورٹ بینچ کے لیے عدالت میں 13 کرسیاں بھی لگا دی گئیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات
دوسری جانب امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کے باہر پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی۔اس کے علاوہ عدالت عظمٰی کے باہر قیدیوں والی وین بھی پہنچادی گئی، اور غیر متعلقہ افراد کو کسی صورت سپریم کورٹ میں داخل نہ ہونے دینے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی ریگولر بینچ کے ساڑھے 9 بجے فیصلہ سنانے کی کاز لسٹ جاری کی گئی تھی، بعد ازاں سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر نئی کاز لسٹ جاری کی گئی جس کے تحت اب جمعہ 12 جولائی کو دن 12 بجے فیصلہ سنایا جائے گا۔الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم، پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل ہے: سپریم کورٹ
اس سے قبل فیصلہ محفوظ ہونے کے اگلے روز یعنی بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارت میں اہم مشاورتی اجلاس ہوا تھا جس میں 13 رکنی فل کورٹ میں شامل تمام ججز شریک ہوئے، اجلاس تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا، جس میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر تفصیلی مشاورت کی گئی تھی تاہم گزشتہ روز بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت دوسرا مشاورتی اجلاس ہوا۔
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
13 رکنی فل کورٹ ججز میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان شامل تھے۔
یاد رہے کہ 9 جولائی بروز منگل کو سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا اور اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ فیصلہ کب سنایا جائے گا ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، فیصلہ سنانے سے متعلق آپس میں مشاورت کریں گے۔
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟
سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے 21 فروری کو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا، 27 فروری کو مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم فریق بنے۔
28 فروری کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کیا۔
4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر 1-4 کے تناسب سے فیصلہ سنایا اور قرار دیا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔
الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کے حصے کی نشستیں بھی دوسری جماعتوں کو دے دیں، نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے پرالیکشن کمیشن کے ایک ممبرنے اختلاف کیا تھا۔
6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پشاورہائیکورٹ سے رجوع کیا، 14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کے لیے دائردرخواستیں خارج کیں۔
پشاورہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کیا۔
2 اپریل کو مخصوص نشتوں کے لیے سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔
6 مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کی حد تک پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا جبکہ 3 رکنی بینچ نے آئینی معاملہ ہونے کے باعث لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا۔
31 مئی کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے لیے 13 رکنی فل کورٹ تشکیل دیا گیا، فل کورٹ نے 3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی پہلی سماعت کی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے 9 سماعتوں کے بعد 9 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا جبکہ سماعتیں یو ٹیوب اسٹریمنگ کے ذریعے براہِ راست نشر کی گئیں۔
سنی اتحاد کونسل کا مؤقف
دورانِ سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجموعی طور پر 77 متنازع نشستیں ہیں، یہ 77 مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیئے تھیں مگر دیگر جماعتوں کو ملیں، 77 نشستوں میں قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55 نشستیں شامل ہیں۔
کس جماعت کو کتنی اضافی مخصوص نشستیں ملیں؟
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد 77 متنازع مخصوص نشستوں کو معطل کر دیا تھا، کُل 77 متنازع نشستوں میں سے 22 قومی اور 55 صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں ہیں۔
الیکشن کمیشن پاکستان نے 13مئی کے نوٹیفکیشن کے ذریعے ان نشستوں کو معطل کر دیا تھا۔
قومی اسمبلی کی معطل 22 نشستوں میں پنجاب سے خواتین کی 11، خیبر پختون خوا سے 8 سیٹیں شامل ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں معطل نشستوں میں 3 اقلیتی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 14، پیپلز پارٹی کو 5، جے یو آئی ف کو 3 اضافی نشستیں ملی تھیں۔
سنی اتحاد کونسل مخصوص نشتوں کے کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ کا روسٹر جاری
خیبر پختونخوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی مخصوص نشستیں معطل ہیں جن میں سے جے یو آئی ف کو 10، مسلم لیگ ن کو 7، پیپلز پارٹی کو 7، اے این پی کو 1 اضافی نشست ملی تھی۔
پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 3 اقلیتی نشستیں معطل ہیں، جن میں سے ن لیگ کو 23، پیپلز پارٹی کو 2، پی ایم ایل ق اور استحکامِ پاکستان پارٹی کو ایک ایک اضافی نشست ملی تھی۔
سندھ اسمبلی سے 2 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 1 اقلیتی نشست معطل ہیں جہاں پیپلز پارٹی کو 2 اور ایم کیو ایم کو 1 مخصوص نشست ملی تھی۔
واضح رہے کہ 2 جولائی کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ الیکشن کمیشن نے خود آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، کیا بنیادی حقوق کے محافظ ہونے کے ناتے ہماری ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کریں؟
اس سے گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے تھے کہ تحریک انصاف ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔
27 جون کو سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے اہم ریمارکس دیے تھے کہ سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا۔
25 جون کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آمر آئے تو سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں۔
24 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔
22 جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے درخواست پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایس آئی سی کے آئین کے مطابق غیر مسلم اس جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا، سنی اتحاد کونسل آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کے خلاف شرط غیر آئینی ہے، اس لیے وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں ہے۔
4 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی سارے مسئلے حل ہو جاتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا۔
3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔
31 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دیا تھا۔
4 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے مقدمے کی سماعت کی مقرر کردہ تاریخ تبدیل کردی تھی۔
3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔
3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔
الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔