اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے ہائیکورٹ آفس کو مشکوک کال اور پیغامات موصول ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
عدالتی ذرائع کے مطابق مشکوک کال کرنے والے نے خود کو بطور ڈی جی ایف آئی اے متعارف کرایا تاہم تحقیقات کے بعد پتہ چلا ڈی جی ایف آئی اے نے کوئی کال نہیں کی، مشکوک کال کرنے والا ڈائریکٹ جسٹس طارق جہانگیری سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔
مشکوک کال کے بعد جسٹس طارق جہانگیری نے رجسٹرار کو طلب کر لیا اور ہدایت کی کہ رجسٹرار موبائل نمبر کے حوالے سے ایف آئی اے کو فوری رپورٹ کرے۔
عدالتی ذرائع کے مطابق مشکوک کال 2 روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق جہانگیری آفس کی گئی، مشکوک نمبر سے جسٹس طارق جہانگیری کے موبائل نمبر پر مسیجز بھی بھیجے گئے۔
دوسری جانب جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی کے خلاف درخواست دائر کردی گئی۔
جسٹس جہانگیری کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت رٹ آف کو وارانٹو کے ذریعے چیلنج کی گئی ہے رٹ آف کو وارنٹو میں سپریم کورٹ کے 1998 کے جسٹس سجاد علی شاہ کیس کو مرکزی قانونی بنیاد بنایا گیا ہے۔
میاں داؤدایڈووکیٹ نے آئینی درخواست دائر کی، جس میں موقف اختیار کیا کہ جسٹس جہانگیری کی وکیل بننے کی بنیادی قابلیت ایل ایل بی کی ڈگری غلط ہے، غلط ڈگری کی بنیاد پر ان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت بھی دائر ہو چکی ہے جبکہ جسٹس طارق کے مطابق انہوں نے یونیورسٹی آف کراچی سے ایل یل بی کیا۔
میاں دائود ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جسٹس طارق کی ایل ایل بی پارٹ ون کو منسوب انرولمنٹ نمبر اے آئی ایل پانچ ہزارنوسواڑسٹھ امتیاز احمد نامی شہری کا ہے، پارٹ ون کی مارک شیٹ پر نام طارق جہانگیری ولد محمد اکرم لکھا ہوا ہے، یونیورسٹی کی ٹیبولیشن شیٹ پر درج انرولمنٹ نمبر 5968 بھی امتیاز احمد کی بجائے طارق جہانگیر کو منسوب ہے
درخواست میں مزید کہا گیا کہ پارٹ ون اور پارٹ ٹو پر کالج کا نام گورنمنٹ اسلامیہ کالج لکھا ہوا ہے، جسٹس طارق کو منسوب پارٹ ٹو پر انرولنمنٹ نمبر اے آئی ایل سات ہزارایک سوچوبیس لکھا ہوا ہے۔
میاں دائود ایڈووکیٹ نے کہا پارٹ ٹو کی مارک شیٹ پر نام طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم لکھا ہوا ہے، کالج پرنسپل کے لیٹر کے مطابق طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم 1984 تا 1991 تک کالج کا طالب علم ہی نہیں رہا، یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کے مطابق ایک انرولمنٹ نمبر مکمل ڈگری کیلئے دو افراد کو الاٹ ہو ہی نہیں سکتا۔
دائر درخواست میں کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا 9 رکنی بنچ 1998 میں ہائیکورٹ کے جج کو پبلک آفس ہولڈر اور پرسن قرار دے چکا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ رٹ آف کو وارنٹو میں کسی بھی شخص کیخلاف انکوائری کی پابند ہے۔
میاں دائود ایڈووکیٹ نے کہا سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت زیر التواء ہو تو بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کسی جج کی ذاتی حیثیت میں انکوائری کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کے 9 رکنی بنچ کے فیصلے کی روشنی میں جسٹس جہانگیری کیخلاف آئینی درخواست قابل سماعت ہے، وہ وکیل بننے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے لیکن وہ جج بن گئے، عدالت ان کی تعیناتی غیرآئینی قرار دے کر کالعدم کرے۔