سپریم کورٹ نے نجی میڈیکل کالجز کی فیس سے متعلق درخواست ناقابلِ سماعت قرار دے دی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا میڈیکل فیس دیکھنے سے متعلق کیا کام ہے ، کیاعدالت کمیشن بناسکتی؟ درخواست گزار ریگولیٹری اتھارٹی سے رجوع کرے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نجی میڈیکل کالجز کی فیس سے متعلق کیس کی سماعت کی، درخواست گزار وکیل زاتی حیثیت میں ذوالفقاراحمد عدالت پیش ہوئے۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ میڈیکل کالجز کی فیس پر کون سان قانون لگتا ہے؟ سپریم کورٹ ایسے تو کیس نہیں سن سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے درخواست گزار سے سوال کیا کہ کیا آپ نے پاکستان میڈیکل کمیشن سے فیس کے حوالے سے رابطہ کیا ہے؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ میں نے وزیرِ اعظم اور صدرِ مملکت کو میڈیکل کالجز کی فیس کے حوالے سے خط لکھا ہے، ہمارے بچوں نے تو لاکھوں فیس ادا کرکے پڑھ لیا ہے، آنے والے طلباء کے مستقبل کا معاملہ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیاکہ ان سے بات کریں، فیس کی ریگولیٹری کون کرتا ہے؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان میڈیکل ڈینٹل ایکٹ بنایا گیا، سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط لیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ ریگولیٹری کے پاس جائیں، سپریم کورٹ کا میڈیکل فیس دیکھنے سے متعلق کیا کام؟ فیس ریگولیٹری جب بنا ہوا ہے تو کیا وہاں گئے ہیں؟ کیا ہم کمیشن بنا سکتے؟۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے تو ریگولیٹری سے رجوع کریں۔
سپریم کورٹ نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے درخواست نمٹاتے ہوئے ناقابلِ سماعت قرار دے دے۔