وفاقی حکومت کا حساس ادارے کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت دینے کا اختیار لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جبکہ درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت حکومت کا فون ٹیپ کرنے کی اجازت دینے کا نوٹیفکیشن غیر قانونی قرار دے۔
حکومت کی جانب سے حساس ادارے کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت دینے کے اختیار کے خلاف شہری فہد شبیر نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کی وساطت سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔
درخواست میں وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی حکومت، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ حکومت پاکستان نے ایک نوٹیفکیشن میں ایجنسیوں کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت دی ہے، پی ٹی اے ایکٹ کے جس سیکشن کے تحت نوٹیفکیشن جاری ہوا اس کے ابھی تک رولز نہیں بنے۔
وزیر قانون کی آئی ایس آئی کو فون کالز اور پیغامات ’انٹرسیپٹ‘ کرنے کی اجازت دینے کی تصدیق
درخواست میں مزید کہا گیا کہ آئین پاکستان شہریوں کو پرائیویسی، آزادی اظہار رائے فراہم کرتا ہے، انڈین سپریم کورٹ کے مطابق بھی لوگوں کے فون ٹیپ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت حکومت کا حساس ادارے کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت دینے کا نوٹیفکیشن غیر قانونی قرار دے، عدالت موجودہ درخواست کے حتمی فیصلے تک نوٹیفکیشن پر کارروائی کو معطل کرے۔
درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ حکومت کو ہدایت جاری کی جائے کہ پی ٹی اے ایکٹ کے سیکشن 56 کے رولز بنائے جائیں۔
لاہور ہائیکورٹ کا رجسٹرار آفس درخواست کا جائزہ لینے کے بعد سماعت ہے لیے مقرر کرے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز 9 جولائی کو وفاقی حکومت نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نامزد افسر کو ’قومی سلامتی کے مفاد‘ کے پیش نظر شہریوں کی فون کالز یا پیغامات کو انٹرسیپٹ اور ٹریس کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
حساس ادارے کو ٹیلی فون کالز یا میسج میں مداخلت اور سراغ لگانے کا اختیار مل گیا، پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) ایکٹ 196 کے سیکشن 54 کے تحت اجازت دی گئی۔
اس حوالے سے وفاقی کابینہ نے حساس ادارے کے نامزد افسر کو کال ٹریس کرنےکا اختیار دینے کی منظوری دی، کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے منظوری دی، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس ضمن میں نوٹی فیکشن بھی جاری کردیا ہے۔
فون ٹیپنگ کا کوئی قانون موجود نہیں، جو ہو رہا ہے وہ غیرقانونی ہے، جسٹس بابر ستار
نوٹی فیکشن کے مطابق ملکی قومی سلامتی کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ آئی ایس آئی جس افسر کو شہریوں کی فون کالز اور پیغامات سننے اور ریکارڈ کرنے کے لیے نامزد کرے گی وہ گریڈ 18 سے کم نہیں ہوگا۔