کینیا کی اعلیٰ عدالت نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کے معاملے میں ان کی اہلیہ کی جانب سے دائرکردہ درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کینیا کی حکومت کو اس واقعے کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے اور بیوہ کو زر تلافی کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کینیا کی ہائیکورٹ کی جج جسٹس سٹیلا موٹوکونے پاکستانی صحافی پر کینیا کی پولیس کے اہلکاروں کی فائرنگ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور غیرقانونی قرار دے دیا۔
واضح رہے کہ سینئر صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کو 24 اکتوبر 2022 کو کینیا کے شہر نیروبی میں میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔
اکتوبر 2023 کے دوران جویریہ صدیق اور کینیا میں صحافیوں کی ایسوسی ایشن نے ایک درخواست دائر کی تھی۔ اس کا مقصد صحافی ارشد شریف کے ’ٹارگٹڈ قتل‘ پر کینیا میں حکام کے احتساب، معافی اور شفافیت کا مطالبہ کیا تھا۔
کینیا کی عدالت نے اپنے فیصلے میں حکومت کو حکم دیا کہ صحافی ارشد شریف پر فائرنگ کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔
جسٹس سٹیلا کا کہنا تھا کہ ہر شخص آئین اور قانون کے سامنے برابر ہے اور اسے زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی گہرائی کے ساتھ تحقیقات ہونا لازم ہیں اور ان پر ہونے والی فائرنگ کے بارے میں معلومات کی عدم فراہمی، معلومات کے حصول کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
فیصلے کے مطابق معروف پاکستانی صحافی ارشد شریف کی ہلاکت میں ملوث پولیس اہلکاروں نے نہ صرف انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ انھوں نے اپنے قوائد و ضوابط کو بھی نظر انداز کیا۔
جج نے کہا کہ ارشد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اے جی اس ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔
عدالت نے ارشد شریف کی بیوی اور درخواست گزار جویریہ صدیق کو ایک کروڑ کینین شیلینگ (دو کروڑ 17 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق رقم کی مکمل ادائیگی تک اس پر واجب سود بھی ادا کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’زندگی کے ضیاع کی تلافی مالی لحاظ سے نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اس کی تلافی کی جا سکتی ہے کہ خاندان کو جس تکلیف اور کرب سے گزرنا پڑا۔ لیکن اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے ازالے کے لیے معاوضہ مناسب علاج ہے۔‘
تاہم، ایک کروڑ کینین شیلنگ کا اس معاوضے کی ادائیگی 30 دنوں کے لیے روک دی گئی ہے کیونکہ ریاست نے ایڈوکیٹ آگسٹین کیپکوٹو کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ وہ ابھی ادائیگی کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق پبلک پراسیکیوشنز کے ڈائریکٹر (ڈی پی پی) اور انڈپنڈنٹ پولیسنگ اوور سائٹ اتھارٹی (آئی پی او اے) نے ارشد شریف کی ہلاکت میں ملوث دو پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ عدالت نے ڈی پی پی اور آئی پی او اے کو حکم دیا کہ تحقیقات اور پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی مکمل کی جائے۔
جویریہ صدیقی چاہتی تھیں کہ عدالت اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر پبلک پراسیکیوشن، انسپکٹر جنرل آف پولیس، آزاد پولیسنگ نگرانی اتھارٹی اور نیشنل پولیس سروس کمیشن (جواب دہندگان) کو ان کی تحویل میں موجود تمام دستاویزات کی کاپیاں یا شواہد بشمول فلموں، تصاویر، ویڈیو ٹیپس جن میں زیر بحث شوٹنگ سے متعلق مواد موجود ہے اُنہیں فراہم کرنے پر مجبور کرتے ہوئے ایک حکم جاری کرے۔
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیقی نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا ہے کہ ارشد شریف کی ہلاکت سے متعلق کینیا کی عدالت کا فیصلہ ان کے لیے ریلیف کے ساتھ ساتھ حیرانی کا باعث ہے کیونکہ پاکستان میں بھی اب تک انھیں انصاف نہیں ملا ہے۔
جویریہ کے مطابق ارشد شریف نے اپنی زندگی بچانے کے لیے کینیا میں عارضی طور پر پناہ لی تھی، وہ کئی ملکوں کے ویزا حاصل نہیں کر پا رہے تھے، اس لئے لہذا انہوں نے کینیا آمد پر ویزا حاصل کیا اور پھر وہ کینیا میں چھپ کر زندگی گزار رہے تھے۔
جویریہ صدیقی نے کہا کہ ’میرا خیال ہے انہیں (پولیس اہلکاروں کو) اس قتل کے لیے پاکستان سے لوگوں نے ہائیر کیا۔‘
جویریہ نے کہا کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز سے رابطے کریں گی۔
ارشد شریف کی عمر 49 برس تھی اور ان کا تعلق ایک فوجی خاندان سے تھا۔ ارشد شریف کے والد محمد شریف پاکستان نیوی میں کمانڈر تھے۔
ارشد 1973 میں کراچی میں پیدا ہوئے اور 1993 میں صحافتی کیرئیر شروع کیا۔ وہ پہلے انگریزی اخبارات اور پھر مختلف ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے۔ تاہم ان کی ایک اہم پہچان اے آر وائی نیوز کا پروگرام پاور پلے بنا۔ 2012 میں انہوں نے آگاہی ایوارڈ جیتا۔
ان کے ایک بھائی اشرف شریف پاکستان فوج میں میجر تھے۔ 2011 میں ارشد شریف کے والد کا انتقال ہوا تو وہ بنوں میں تعینات تھے وہاں سے راولپنڈی جاتے ہوئے کار حادثے میں اشرف شریف جاں بحق ہوگئے۔
صدر عارف علوی نے 2019 میں ارشد شریف کو پرائڈ آف پرفارمنس اعزاز سے نوازا۔
ارشد شریف حالیہ چند ماہ میں خبروں میں اس وقت آئے جب 13اگست کو پولیس نے ارشد شریف سمیت اے آر وائی کے صحافیوں اور سی ای او کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ یہ مقدمہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی جانب سے اس ٹی وی چینل پر دیئے گئے ایک بیان کے بعد درج ہوا تھا اور گل پر مسلح افواج کے اراکین کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
مقدمے کے اندراج کے بعد ارشد شریف نے پاکستان چھوڑ دیا اگرچہ دیگر صحافی ملک میں ہی رہے۔
اس کے کچھ ہی دن بعد ارشد شریف کے بیانات کے ردعمل میں اے آر وائی نے اعلان کیا کہ چینل ان کے ساتھ اپنی 8 سالہ رفاقت ختم کر رہا ہے۔
اگست میں پاکستان چھوڑنے کے بعد ارشد شریف لندن میں دیکھے گئے۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ وہ کینیا کے شہر نیروبی کیوں گئے تھے۔