الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حال ہی میں اپنی آفیشل گوگل ڈرائیو پر محفوظ کردہ فارم 45 کو اپ ڈیٹ کرکے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کم از کم 41 قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے نتائج میں ’ترمیم‘ کی ہے جس کے بعد کئی سوالات جنم لے چکے ہیں۔
انگریزی اخبار کے دعویٰ کے مطابق اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ دستاویزات میں کیا ترمیم کی گئی ہے لیکن اس اقدام نے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھادیے ہیں۔
خاص طور پر ایسے وقت میں جب انتخابات سے متعلق کئی تنازعات پہلے ہی فیصلے کے لیے انتخابی ٹربیونلز کے سامنے موجود ہیں۔
واضح رہے کہ فارم 45 ایک اہم ریکارڈ ہوتا ہے کیونکہ اس میں پولنگ اسٹیشن اور بیلٹ کی تعداد کے بارے میں اہم معلومات ہوتی ہیں، اور اس پر ہر پولنگ اسٹیشن کے پریزائیڈنگ افسر کے دستخط ہوتے ہیں۔
انتخابی اعداد و شمار میں تبدیلی بظاہر ایک این جی او ’پاکپتن کولیشن 38‘ کی ایک رپورٹ کے بعد کی گئی ہے۔ جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ای سی پی کی ویب سائٹ پر ایک درجن سے زائد حلقوں کے فارم دستیاب نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ 3 جولائی کو جاری ہونے والی اس رپورٹ کو الیکشن کمیشن نے ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا تاہم، انگریزی اخبار ڈان کی جانب سے سرکاری طور پر اپ لوڈ کیے گئے ڈیٹا کی آزادانہ چھان بین سے یہ بات سامنے آئی کہ ای سی پی کا دعویٰ غلط تھا۔
ای سی پی کی گوگل ڈرائیو پر دستیاب ڈیٹا کے مطابق 3 جولائی کو لاہور کے 14 صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے فارم 45 غائب تھے۔ ان کی جگہ فارم 46 اپ لوڈ کیے گئے تھے تاکہ اس خلا کو پُر کیا جا سکے۔
3 جولائی کو ای سی پی گوگل ڈرائیو کی جانچ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لاہور کے حلقہ این اے 125 کے لیے تقریباً 50 فارم 45 غائب تھے۔
لیکن یہ آئند روز ہی تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ 4 اور 5 جولائی کو گوگل ڈرائیو پر نظر آنے والی ترمیم کی تاریخ کے مطابق ای سی پی نے NA-125 کے ساتھ ساتھ لاہور کے 14 دیگر صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے لیے بقیہ فارمز شامل کیے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حلقہ پی پی 159 کے علاوہ ان نشستوں میں پی پی 164 (لاہور)، وزیر اعظم شہباز شریف کی خالی کردہ نشست اور پی پی 150 بھی شامل ہے جس سے استحکم پاکستان پارٹی کے علیم خان نے کامیابی حاصل کی تھی۔
لاہور کے ان حلقوں کے علاوہ، ای سی پی نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ (کے پی) کے دیگر 26 قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے فولڈرز میں بھی تبدیلی کی، جہاں فارم 45 پہلے ہی اپ لوڈ کیے جا چکے تھے۔
ادھر ای سی پی کے ایک اہلکار نے دعویٰ کیا کہ اگر کچھ فولڈرز میں فارم 45 کے بجائے فارم 46 اپ لوڈ کیے گئے ہیں تو یہ ایک دیانتداری پر مشتمل غلطی تھی اور اس کے پیچھے کوئی منفی ارادہ نہیں تھا۔
انہوں نے اصرار کیا کہ اس مرحلے پر فارم 45 کو تبدیل کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ ان دستاویزات کی کاپیاں امیدواروں کے پاس پہلے سے موجود تھیں اور کچھ الیکشن ٹربیونلز کے سامنے بھی آچکی تھیں۔