پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے پاکستان کے انتخابات کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ پاکستان کا نیا معاہدہ ’مشکل‘ ہو سکتا ہے۔
محمود خان اچکزئی ”تحریک تحفظ آئین پاکستان“ کے رہنما بھی ہیں، جو ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے والی حزب اختلاف کی جماعتوں کا ایک مجموعہ ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے آئی ایم ایف پیکج ملنے کی امید پر تبصرہ کیا ہے، جبکہ تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ سمیت 3 روزہ کانفرنس کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔
محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان سے محبت کرنے والا ہر پاکستانی تحریک تحفظ آئین پاکستان کو ایک ڈوبتے جہاز کا ”ایس او ایس“ میسیج سمجھے۔
انہوں نے کہا کہ دوجماعتیں جو تحریک تحفظ آئین پاکستان کا حصپہ نہیں، ان میں مولانا فضل الرحمان اس تحریک سے اتفاق کر رہے ہیں کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہوگی، اس میں اسٹبلشمنٹ کا کردار نہیں ہوگا، ہر ادارہ آئین میں واضح کردہ اپنی حدود میں رہے گا، پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگی، اور یہی بات جماعت اسلامی کے امیر بھی کر رہے ہیں۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ جب آپ 47 اور 45 کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ موجودہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتے۔
انہوں نے کہا کہ جب امریکہ جیسا ملک کہتا ہے کہ یہاں کے انتخابات پر سوال ہیں اس کی تحقیقات ہونی چاہئیے، ’پھر آئی ایم ایف تو گیا‘۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آئی ایم ایف کو سب نظر آرہا ہے، جب ان کی پارلیمنٹ ان کی کانگریس کہتی ہے کہ پاکستان یہ انتخابات غلط ہیں جھوٹ ہیں، تو پھر کیا ان کا دماغ خراب ہے؟
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے تعاون نہیں کرے گا؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’کیوں کرے؟ وہ تو سود وروں کا ایک مجمع ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ابھی ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں، جب ایک بلڈنگ کی بنیادیں برباد کردی جائیں تو یا تو آپ پڑے رہیں اپنی مدہوشی میں اور یہ بلڈنگ آپ پر گر جائے گی، یا عقل سلیم کا تقاضہ یہ ہے کہ توبہ کریں، جو کچھ آپ نے اور ہم نے کیا اس پر ایک دوسرے کو طعنے نہ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ملک کی تشکیل نو کرنی ہوگی، یہ پارٹیاں باوجود اختلافات اور کدورتوں کے ایک گول میز کانفرنس بلائیں، اس میں مولانا فضل الرحمان ہوں، تحریک انصاف ہوں، پیپلز پارٹی کے لوگ ہوں، اس میں سارے جرنلسٹ ہوں، سارے دانشور ہوں، جو تجارت کو سمجھتے ہیں وہ لوگ ہوں اور ’اگر ضروری ہوا تو اسٹبلشمنٹ کے لوگ بھی ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’بیٹھیں اور آکر توبہ کریں‘۔
انہوں نے ملکی مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ سمیت تین روزہ کانفرنس بلانے کا بھی مطالبہ کیا۔
آپ ساتھ بیٹھنے کی بات کرتے ہیں لیکن عمران خان تو کسی سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ہوتا ہے، آدمی تنگ ہوجاتا ہے، حالات تنگ کردیتے ہیں، وہ سیاسی آدمی ہے، پڑھا لکھا آدمی ہے، بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں اٹھنا بیٹھنا تو ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اب بھی اپنی قدموں پر کھڑا ہوسکتا ہے، ’ہمیں اپنی اسٹبلشمنٹ کو بتانا پڑے گا، محنت کرنی پڑے گی، خدا کو مانیں، پلیز بس، Enough is enough (بہت ہوگیا)، جو آئین کہتا ہے اس دائرے میں رہیں‘۔
کیا آٓپ بانی پی ٹی آئی کو منا سکتے ہیں کہ شہباز شریف وزیراعظم ہیں ان کے ساتھ بیٹھے مذاکرات کریں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’بانی پی ٹی آئی غریب تو جیل میں بیٹھا ہے وہ کیسے آئے گا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’شہباز آچھا آدمی ہے، لیکن میں معافی چاہتا ہوں وہ پولیٹیکل آدمی نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں بعض آوقات ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے جو ایک دوسرے کے بدترین دشمن ہوتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے جو جمہوری طرز فکر اپنایا اس کی سزا انہیں ان کے اپنے گھر اپنی پارٹی کے زریعے دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی لوگوں کو بھی ایک شریفانہ معاہدہ جیسے چارٹر آف ڈیموکریسی کرنا ہوگا کہ ہم نے ایک دوسرے کے کپڑے نہیں اتارنے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان آج ایک آدمی نہیں پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر ہے، کیا تُک ہے اس کو آپ نے جیل میں رکھا ہوا ہے، چلتے رہیں کیسز، کیوں آپ اس کو ضمانت پر رہا نہیں کرتے، ’پتا نہیں وسڈم کی کمی ہے یا اسٹیٹسمین شپ کی کمی ہے، چھوڑ دیں اس کو ضمانت پر‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ خدانخواستہ اگر وہ بھاگ جانا چاہتا ہے تو تمہاری جان چھوٹ جائے گی، لیکن وہ نہیں بھاگے گا، چھوڑنا تو آپ کو پڑے گا لیکن بہت خرابی کے بعد، وہ ضمانت پر آئے گا تو یہ ٹمپریچر کم ہوجائے گا، ان کی رہائی مشروط نہیں ہونی چاہئیے، رہائی اس کا حق ہے، جب لوگ نکلیں گے اور مجبور ہوکر آپ اس کو نکالیں گے تو اس کا فائدہ کیا ہوگا آپ کو۔
محمود خان اچکزئی نے مزید کہا کہ پاکستان کو بچانے کے لیے ملک کی تمام قوتوں کو ایک متفقہ لائحہ عمل پر متفق ہونا پڑے گا۔ انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں نئے انتخابات ہونے چاہئیے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستا اپنی آزادی معاملے میں بہت حساس ہے، پھر وہ چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم کسی کو نہیں چھوڑتا، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل افغانستان اور اس کے ہمسایوں کی کانفرنس بلائیں، ہمسایوں کے جو خدشات ہیں افغانستان سے وہ بیان کئے جائیں، افغانستان اپنا جواب دے، پھر افغانستان ہمسایوں سے اپنے خدشات بیان کرے مسئلہ حل ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’افغانستان ہمارا پانچواں صوبہ، اسٹریٹیجک ڈیپتھ اس سوچ کو آپ نے چھوڑنا ہوگا‘۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ افغانستان آپ کو لکھ کر دے گا کہ میں آپ کے مخالفین کو مسلح نہیں کروں گا، آپ مجھے لکھ کر دے دیں کہ آپ میرے مخالفین کو مسلح نہیں کریں گے، ہم دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے تو سکیورٹی کونسل کے ممالک نظر رکھیں، اگر میں مداخلت کرنا ہوں تو میرا ہاتھ پکڑیں اگر آپ کرتے ہیں تو آپ کا ہاتھ پکڑیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ہم مشکل میں ہیں، افغانستان میں کوئلہ بجلی گیس وافر مقدار میں پڑا ہوا ہے، ان کو راستہ دیں ان کی پائپ لائنیں نکال کر ملتان کی طرف لے جائیں آئی ایم ایف کا قرضہ اتر جائے گا، گڑبڑ مت کرو افغانستان سے بناؤ۔