ایران میں ہر صدارتی انتخاب کے موقع پر ایک سوال ضرور ذہنوں میں پنپتا ہے۔ یہ کہ کیا اب ایران میں کوئی حقیقی، بڑی تبدیلی رونما ہوگی۔ گزشتہ ماہ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی رحلت کے بعد قبل از وقت صدارتی انتخاب کے موقع پر پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا۔
نومنتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان اصلاح پسند ہیں یعنی رجعت پسند مذہبی قیادت سے ہٹ کر کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ایسے میں لوگ بوجوہ شکوک میں بھی مبتلا ہیں۔ ذہنوں میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ وہ امید کی کرن ہیں یا محض اسٹیبلشمنٹ کی کوئی نئی چال۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں جو لوگ سیاسی اصلاحات کے حامی ہیں اُن کے لیے مسعود پزشکیان نے وعدہ کیا ہے کہ ملک اب نئی حکمتِ عملی کے تحت آگے بڑھے گا۔ اور یہ بھی کہ ایران میں چند ایک غیر متوقع امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔
ایران میں ایک عمومی چلن یہ رہا ہے کہ کوئی بھی امیدوار علما کی ایک طاقتور کمیٹی کی طرف سے اجازت ملنے ہی پر صدارتی انتخابم یں حصہ لے سکتے ہں۔ عوام میں اس عمل سے بیزاری نمایاں ہے اور ووٹ ڈالنے سے کترانے کا رجحان بھی۔
مسعود پزشکیان کو بہت سوں نے وائلڈ کارڈ انٹری بھی قرار دیا۔ مسعود پزشکیان کے حوالے سے یہ بات بہت غیر معمولی اور دلچسپ ہے کہ وہ خواتین کو حجاب کی پابندی کرنے پر مجبور کرنے والی اخلاقی پولیس کو غیر اخلاقی قرار دے چکے ہیں۔
مسعود پزشکیان کہتے رہے ہیں کہ ڈریس کوڈ کے حوالے سے اپنایا جانے والا رویہ کسی طور درست نہیں کیونکہ مذہب لباس کے معاملے میں ایسی سختی کی اجازت نہیں دیتا۔
مسعود پزشکیان سے ایرانی قوم نے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ وہ مغرب سے تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ دے چکے ہیں اور قومی معیشت کو بحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اہم ایشوز پر گفت و شنید کی بات بھی کرچکے ہیں۔ انہیں دو سابق صدور حسن روحانی اور محمد خاتمی کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سابق وزیر خزانہ جواد ظریف بھی ان کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
عام خیال یہ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس بار بھی انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے گی۔ دو امیدواروں کے انتخابی دوڑ سے الگ ہو جانے کو بھی اِسی تناظر میں دیکھا گیا۔
مسعود پزشکیان کو ڈلیور کرنا ہوگا تاکہ ان کے بارے میں یہ تاثر دم توڑے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ بھیس بدل کر لائی ہے۔ جو وعدے انہوں نے کیے ہیں ان پر عمل بھی کرنا ہوگا تاکہ لوگوں کو کچھ ریلیف ملے۔
ایران میں صدارتی انتخابات کے دوران ٹرن آؤٹ کے بہت کم ہونے کی شکایت رہی ہے۔ سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے عوام سے کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں گھروں سے نکلیں اور ووٹ کاسٹ کریں۔
ایران کی نئی نسل قدامت پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ متوسط طبقے کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ایسے میں صدارتی انتخاب بہت حد تک نظریاتی معرکہ آرائی کے روپ میں دیکھا گیا۔ نئی نسل چاہتی ہے کہ حقیقی تبدیلی رونما ہو۔ 2022 میں مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے بعد ہنگامے پھوٹ پرے تھے۔ اس سے عوام اور ریاستی مشینری کے درمیان خلیج مزید وسیع ہوگئی تھی۔
عوام میں مجموعی طور پر مایوسی اس لیے ہے کہ ماضی میں اصلاح پسندوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ اس بار سابق صدر حسن روحانی کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسعود پزشکیان کو محض اس لیے صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی ہے کہ ٹرن آؤٹ بہتر ہوسکے۔
ڈاکٹر مسعود پزشکیان ملک کو بہت کچھ دینے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے تمام وعدے پورے کرسکیں گے، یہ دیکھنا باقی ہے۔
نومنتخب ایرانی صدر ایران کے علاقے ماہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ آرمیا میں ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے تبریز یونیورسٹی سے طب کی تعلیم لی تھی۔ وہ دل کے معالج (سرجن) ہیں اور وزیرِ صحت رہ چکے ہیں۔ پانچ بار ایرانی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کے علاوہ وہ نائب صدر منصب پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
1994 میں مسعود پزشکیان کی اہلیہ اور ایک بچے کی کار کے حادثے میں موت واقع ہوئی تھی۔ انہوں نے دوسری شادی نہیں کی اور دو بیٹوں اور بیٹی کی پرورش پر بھرپور توجہ دی۔
ایرانی معیشت کو دوبارہ مستحکم کرنا اور معاشرے میں ہم آہنگی بڑھانا اُن کے لیے سب سے بڑا ٹاسک ہوگا۔ تعلیم و صحت کے شعبے کو مضبوط بنانا بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔