Aaj Logo

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2024 11:33pm

اسلام آباد : پولیس سے کامیاب مذاکرات کے بعد رفاقت تنولی کا احتجاج ختم کرنے کا اعلان

اسلام آباد میں دو سال قبل مبینہ طور پر جج کی بیٹی کی کار کی ٹکر سے جاں بحق ہونے والے نوجوان شکیل تنولی کے والد رفاقت تنولی رہائی کے بعد واپس نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر دھرنے میں پہنچ گئے ہیں۔ پولیس سے کامیاب مذاکرات کے بعد رفاقت تنولی نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

رفاقت تنولی سے ڈی آئی جی آپریشنز نے مذاکرات کیے۔ جس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے رفاقت تنولی نے کہا کہ ڈی آئی جی ہمارے دھرنے میں آئے ہیں، انہوں نے ہماری بات سنی اور ہم نے اپنے تحفظات بیان کیے۔

رفاقت تنولی گرفتاری کیس : ’عدالت عالیہ ہو یا حکومت کسی نے غلط کیا تو قانون برابر ہے‘، جسٹس عامر فاروق

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈی آئی ڈی جی نے ہمارے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، انھوں نے 10 دن میں میرے بیٹے کی قاتلہ کو گرفتار کرنے کا کہا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مطالبات پورے نہ ہوئے تو ہم دوبارہ ڈی چوک آئیں گے، ڈی ائی جی کی یقین دہانی پر ہم اپنا احتجاج ختم کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ نوجوان شکیل تنولی کے لواحقین نے انصاف کے حصول کے لیے وفاقی دارالحکومت میں نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگایا تھا، تاہم پولیس نے مظاہرین کو گرفتار کرلیا تھا۔

گرفتاری سے قبل شکیل کے والد رفاقت علی تنولی نے آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس گاڑی سے حادثہ ہوا اسے لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے جسٹس شہزاد ملک کی بیٹی چلا رہی تھی، ابھی تک ملزمہ کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ 2022 میں مبینہ طور پر لاہور ہائی کورٹ کے جج کی بیٹی کی اسپورٹس گاڑی کی ٹکر سے ایکسپریس وے پر سوہان پل کے قریب شکیل تنولی اور اس کا دوست علی حسنین جاں بحق ہوگئے تھے۔ واقعہ آدھی رات کو تیزی رفتاری کے باعث پیش آیا جس کے بعد سے کیس کی تفتیش تعطل کا شکار تھی۔

شکیل کے والد رفاقت تنولی نے کارروائی کیلئے درخواست دی تو دوران تفتیش معلوم ہوا کہ گاڑی لاہور ہائیکورٹ کے جج کے زیر استعمال تھی۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے کارروائی میں سستی سے کام لینے پر رفاقت نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے بھی رجوع کیا تھا۔

شکیل کے والد رفاقت تنولی نے بتایا کہ پولیس کی تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ یہ گاڑی لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کے جج کے زیر استعمال تھی۔

عدالتی ریکارڈ میں دستیاب تفصیلات کے مطابق 8 جون کو شکیل تنولی اور ان کے ساتھی حسنین علی آدھی رات کو گھر جا رہے تھے کہ انہیں مبینہ طور پر ایک خاتون ڈرائیور نے گاڑی کی ٹکر مار دی تھی اور گاڑی چھوڑ کر موقع سے فرار ہوگئی تھیں۔

پولیس نے گاڑی کو اپنی تحویل میں لے لیا جسے بعد ازاں جولائی 2022 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک اہلکار کو اس یقین دہانی پر ”سپر داری“ پر دیا گیا کہ وہ ’جب ضرورت ہو گی گاڑی کو عدالت میں پیش کریں گے‘۔

چونکہ پولیس اس کیس کی تفتیش نہیں کر رہی تھی، اس لیے رفاقت تنولی نے گزشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت سے درخواست کی کہ وہ پولیس کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا حکم دے۔

رفاقت تنولی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے زیر التوا درخواست میں کہا کہ ملزم کے خاندان کے افراد بشمول اس کے بھائی وجاہت خان بھی مانسہرہ ضلع میں اس کے گھر آئے اور اسے خبردار کیا کہ اگر اس نے کیس کی پیروی کی تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

درخواست میں کہا گیا کہ وقوعہ کے دن سے مدعا علیہ (لاہور ہائیکورٹ کا ڈپٹی رجسٹرار پروٹوکول) تحقیقات کے مقصد کے لیے مقامی پولیس پی ایس کھنہ اسلام آباد کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا ہے، ’ملزمہ جو مذکورہ گاڑی چلا رہی تھیں اس کی رجسٹریشن نمبر LEJ-17-666 تھی۔

Read Comments