وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے خود کو سرنڈر کردیا، اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے علی امین گنڈا پور کے تھانہ آئی نائن میں جاری وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیے جبکہ جج طاہرعباس سپرا نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک اشتہاری رعایت کا حق دارہے؟ اشتہاری عام حقوق حاصل نہیں کرسکتا ،عدالتیں انصاف کے لیے ہوتی ہیں توہین کے لیے نہیں۔
انسداد دہشت گری اسلام آباد میں علی امین گنڈا پور کی تھانہ آئی نائن میں درج مقدمے میں جاری وارنٹ گرفتاری کی معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے جاری وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیے جبکہ علی امین گنڈا پور نے عدالت کے سامنے سرنڈر کر دیا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ سرکاری مصروفیات کے باعث عدالت میں حاضر نہیں ہوسکا۔
وزیراعلیٰ کے پی نے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے علی امین گنڈا پور کی گرفتاری کے وارنٹ منسوخ کرنے کی درخواست منظور کرلی۔
یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے اسلام آباد کے تھانہ آئی نائن میں درج مقدمے میں جاری وارنٹ کی معطلی کی درخواست دائر کی تھی۔
واضح رہے کہ علی امین گنڈا پور کے خلاف تھانہ آئی نائن میں اکتوبر 2022 میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے تناظر میں مقدمہ درج ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کو نا اہل قرار دینے پر احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
دوسری جانب انسداد دہشت گردی عدالت نے وزیر اعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور رہنما رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمر ایوب، شبلی فراز، علی نواز اعوان و دیگر کی جوڈیشل کمپلکس توڑ پھوڑ کیس میں ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواست ملتوی کردی۔
ڈان نیوز کے مطابق جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر سماعت جج طاہر عباس سپرا نے کی۔
سماعت کے دوران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور، عمر ایوب اور شبلی فراز عدالت کے سامنے پیش ہوئے، پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل بابر اعوان ، راجہ ظہور ایڈووکیٹ اور سردار مصروف ایڈووکیٹ و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
جج طاہر عباس سپرا نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ ملزم مبشر لطیف کی گرفتاری چاہیے؟ افسر نے بتایا کہ نہیں چاہیے گرفتاری۔
بعد ازاں عدالت نے کرنل (ر) عاصم کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے دریافت کیا کہ آپ اتنے عرصے سے کہاں رہے ہیں؟ آپ کی ضمانت 25 مئی کو خارج ہوئی ، آپ نے کب فائل کی جس میں آپ نے کہا کہ مجھے گرفتار کرلیا گیا تھا؟ آپ واپس کتنے عرصے بعد آئے ہیں؟ اس پر کرنل (ر) عاصم نے جواب دیا کہ 6 ماہ بعد واپس آیا ہوں۔
جج نے مزید دریافت کیا کہ 25 مئی 2023 کو آپ کی ضمانت خارج ہوئی اور آپ نے جون 2024 میں درخواست دائر کی۔
اس کے بعد عدالت نے علی نواز اعوان کو روسٹرم پر بلا لیا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ علی نواز اعوان نامزد ملزم ہیں اور انہوں نے 8 ماہ بعد ضمانت کی درخواست دائر کی ، وکیل نے بتایا کہ وہ شامل تفتیش ہوئے اور اس کے بعد 9 مئی واقعات ہوئے تو ایبٹ آباد میں ضمانت فائل کی تھی، اس پر جج نے استفسار کیا کہ فائل میں سرٹیفیکیٹ لگے ہوئے ہیں؟ عدالتیں انصاف کے لیے ہوتی ہیں توہین کے لیے نہیں ہوتی۔
بعد ازاں علی امین گنڈاپور کے وکیل راجا ظہور نے جواب دیا کہ ایک مہینے تک علی امین گنڈا پور گرفتار رہے تو مگر پولیس نے اس کیس میں گرفتاری نہیں ڈالی۔
وکیل نے مزید کہا کہ پولیس کے پاس ساری معلومات تھیں ، اسلام آباد ہائی کورٹ میں تمام ریکارڈ پیش کیا گیا، اس پر جج نے کہا کہ غلط آرڈر ہوا تو آپ نے کسی فورم پر اس حوالے سے رجوع کیا؟ وکیل نے بتایا کہ جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں اسلام آباد پولیس نے تمام مقدمات کی پیش کیے، جج نے استفسار کیا کہ کورٹ نے اس ریکارڈ کی بنیاد پر ایک آرڈر کردیا اور اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ؟ کیا ایک اشتہاری رعایت کا حق دار ہے ؟ اشتہاری عام حقوق حاصل نہیں کرسکتا۔
اس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہم جب عدالت کے سامنے سرنڈر کر رہے ہیں تو مطلب ہماری نیت فراڈ کی نہیں ہے۔
اسی کے ساتھ جج طاہر عباس سپرا نے پرویز مشرف ، نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کے بعد ملزمان کے حقوق کے حوالے سے ہائی کورٹ کے کیسز کا حوالہ دیا۔
اس پر وکیل نے بتایا کہ جب میرا مؤکل گرفتار تھا تو اشتہاری کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
اسی کے ساتھ عدالت نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کو روسٹرم پر بلا لیا۔
جج طاہر عباس سپرا نے ریمارکس دیے کہ علی امین صاحب ایک کیس میں آپ وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں، اس میں حاضری لگوا دیں، علی امین نے کہا کہ میرا ایک ہی مؤقف ہو کہ میں گرفتار تھا ، میری اور کیسز میں گرفتاری کیوں نہیں ڈالی گئی؟ جج نے کہا کہ پولیس نے جو کیا وہ غلط ہے آپ نے اس کے خلاف اپیل کیوں نہیں کی؟
بعد ازاں جج طاہر عباس سپرا نے ریمارکس دیے کہ سماعت 8 جولائی کو رکھ لیتے ہیں ، علی امین گنڈاپور نے استدعا کی کہ محرم کے بعد رکھ لیں ہمارے خیبرپختونخوا میں محرم حساس ہوتا ہے۔
اسی کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت میں 29 جولائی تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ 18 مارچ 2023 کو عمران خان توشہ خانہ کیس کی سماعت میں پیشی کے لیے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچے تو اسلام آباد پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان گھنٹوں تک جھڑپیں جاری رہی تھیں۔
اس دوران دوران پولیس اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، پی ٹی آئی نے پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگانے کے لیے پیٹرول بموں کے ساتھ ساتھ پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔