اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 2022 میں گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہونے والے شکیل تنولی کے والد رفاقت تنولی کی گزشتہ روز ہونے والی گرفتاری کیخلاف درخواست پر آج سماعت کی۔ اس دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ، اگر قانون سب کیلئے برابر ہے تو برابری کر کے دکھائیں، پولیس بیان قلمبند کرلیتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو سال 2022 میں لاہور ہائیکورٹ کی گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہونے والے شکیل تنولی کے والد رفاقت تنولی کا بیان قلمبند کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے 2022 کا معاملہ ہے، 2024 آدھا گزر چکا ہے، چالان جمع نہیں ہوا، یہ نظام کی ناکامی ہے۔ عدالت عالیہ ہو یا حکومت کسی نے کچھ غلط کیا ہے تو قانون سب کیلئے برابر ہے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 2022 میں گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہونے والے شکیل تنولی کے والد رفاقت تنولی کی گرفتاری کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اور آئی جی اسلام آباد علی ناصر زیدی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت کے استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ایک ایف آئی آر درج ہوئی ہے، یہ لوگ ایک احتجاج کر رہے تھے اور ریڈ زون میں جانا چاہتے تھے۔
جج کی بیٹی کیخلاف ہٹ اینڈ رن کیس: حادثے میں ہلاک شکیل تنولی کے والد احتجاج پر گرفتار
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے تو کیا ہوا کوئی دہشت گرد ہیں وہ؟ احتجاج کرنا غلط ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا پولیس نے مظاہرین کو انگیج کرنے کی کوشش کی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کیا یہ کوئی دہشت گرد ہیں جو انگیج کیا؟ اپنے الفاظ کے چناؤ میں محتاط رہیں۔ کیا وجہ تھی جو وہ احتجاج کر رہے تھے؟
آئی جی اسلام آباد نے موقف اپنایا کہ مظاہرین انصاف نہ ملنے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے احتجاج کر رہے تھے تو غلط کر رہے تھے؟ کیا چالان جمع ہو چکا ہے؟ آئی جی اسلام آباد نے موقف اپنایا ابھی عبوری چالان جمع کرایا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ نظام کی ناکامی ہے، 2022 کا معاملہ ہے، اب 2024 آدھا گزر چکا ہے۔ آئی جی صاحب آپ سسٹم کی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ پولیس انوسٹی گیشن کر رہی تھی، چودہ دن میں چالان جمع ہونا ہوتا ہے۔ اگر کارروائی نہیں ہو رہی تو ایک شخص داد رسی کیلئے کیا کرے؟ اب وہ احتجاج کر رہے تھے تو پولیس نے گرفتار کر لیا۔