Aaj Logo

شائع 04 جولائ 2024 02:23pm

صحتِ عامہ و دواسازی کے شعبے معیاری پالیسیوں کے منتظر

پاکستان کی معیشت اور عوام دونوں کو صحت کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ قرضوں تلے دبی ہوئی معیشت اور ٹیکس دینے والے شعبوں پر کو نشانہ بنانے والے ٹیکس اقدامات کے تناظر میں ملک کو اس مشکل صورتِ حال سے نکالنے میں پالیسی میکنگ کا کردار بہت اہم ہے۔

ترقی پذیر اقوام پائیدار ترقی کے لیے صحتِ عامہ اور دواسازی کے شعبے کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں ماہرین ان دونوں باہم جُڑے ہوئے شعبوں سے برتی جانے والی بے اعتنائی اور غیر مستقل مزاجی پر مبنی پالیسی میکنگ پر ماتم کناں ہیں۔ مزید برآں، مفاد پرست عناصر اصلی دواؤں کی اسمگلنگ اور جعلی دواؤں کی فروخت میں ملوث ہیں جو اضافی دردِ سر ہے۔

پاکستان میں اوسط عمر 67 کے آس پاس ہے جو اِس درجہ بندی کے ممالک میں سب سے کم ہے۔ جنوبی ایشیا میں اوسط عمر 71.6 سال ہے۔ 2023 میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ ”ہیلتھ کیئر اِن پاکستان : نیویگیٹنگ چیلنجز اینڈ بلڈنگ برائٹر فیوچر“ میں پاکستان میں لڑکھڑاتے اور داؤ پر لگے ہوئے ہیلتھ کیئر سسٹم کو درست کرنے کے حوالے معقول طریقے یہ ہیں کہ مالیاتی تعاون بڑھایا جائے اور بنیادی ڈھانچے کو ترقی دی جائے۔ اس رپورٹ میں اس اہم شعبے کو درپیش دیگر چیلنجز پر بھی بحث کی گئی تھی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جان بچانے والی بیشتر دوائیں اِتنی مہنگی ہیں کہ عام، غریب آدمی اُنہیں خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں سینیر قائدانہ پوزیشن پر خدمات انجام دینے والے ایک سابق ایگزیکٹیو ارشد رحیم نے نشاندہی کی کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحتِ عامہ کے لیے کم ترین بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ خطے کی دیگر اقوام مقابلے میں پاکستان میں صحتِ عامہ کے لیے خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 2 فیصد سے بھی کم رقم مختص کی جاتی ہے۔

بنگلہ دیش صحتِ عامہ پر جی ڈی پی کا 5 فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق صحتِ عامہ پر جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد خرچ کیا جانا چاہیے۔ ارشد رحیم نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں صحتِ عامہ کے شعبے کو فوری طور پر بیماریوں کی روک تھام اور اس حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرنے کے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

صحتِ عامہ کا معیار بلند کرنے والی طرزِ زندگی کو فروغ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ارشد رحیم کے مطابق صحت سہولت کارڈ جیسے منصوبوں کے ذریعے ڈاکٹرز کے نسخے کے مطابق عوام کو معیاری دوائیں فراہم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس پروگرام کے تحت مریض کو صرف صحت سہولت کارڈ کے ذریعے ہی دوائیں فراہم کرنے کا اہتمام کیا گیا۔

ارشد رحیم دواساز ادارے وائتھ پاکستان کے سی چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کے پالیسی بورڈ کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معیاری دواؤں کی فراہمی لازم ہے کیونکہ غیر معیاری دوائیں مجموعی طور پر زیادہ مہنگی پڑتی ہیں۔

ارشد رحیم اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ ملک کے مستقبل کا مدار صحت مند آبادی پر ہے۔ معیشت میں پائی جانے والی خامیوں اور کوتاہیوں پر قابو پانا بھی ناگزیر ہے۔ ایسے شعبوں کے لیے زیادہ فنڈنگ کی ضرورت ہے جو عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتے ہوں۔

ارشد رحیم مزید کہتے ہیں کہ اس حوالے سے عملی نوعیت کے حل تجویز کی جانے چاہئیں۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ صحتِ عامہ کے شعبے کا معیار بلند کرنے کے لیے فنڈز آئیں گے کہاں سے؟ حکومت کو خسارے میں چل رہے سرکاری اداروں پر متوجہ ہونا چاہیے تاکہ اُنہیں منافع بخش بنایا جاسکے۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے سابق چیئرمین توقیرالحق نے بھی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ صحتِ عامہ کے شعبے پر زیادہ توجہ مرکوز کرے۔

ان کا کہنا ہے کہ معاشرے کے پِچھڑے ہوئے شعبوں اور طبقوں کی مدد کرنا اور اُنہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

توقیرالحق کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں آئے دن دواؤں کی قلت رونما ہوتی رہتی ہے۔ اس حوالے سے حکومتی مداخلت کی اشد ضرورت ہے۔ تمام معاملات کو مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ حکومت بہت سی چیزوں پر سبسڈی دے رہی ہے۔ دوائیں خریدنے کے لیے غریبوں کو بھی سبسڈی دی جانی چاہیے۔ سرکاری اسپتالوں میں مفت یا پھر کم قیمت پر معیاری دوائیں فراہم کی جانی چاہئیں۔

توقیرالحق کا کہنا ہے کہ ماضیں حکومت عوام کو اس حوالے سے مدد فراہم کیا کرتی تھی۔ اب یہ سلسلہ تقریباً مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ بجٹ میں مختص کیے گئے بہت سے فنڈز غیر استعمال شدہ رہ جاتے ہیں۔ ملک بھر میں سرکاری انشورنس پالیسی کے تحت ہیلتھ کارڈ عوام کو فراہم کیے جانے چاہئیں۔

پی پی ایم اے کے سابق چیئرمین صحتِ عامہ کے لیے مختص کیے جانے والے بجٹ سے بھی مایوس ہیں، بالخصوص ایسی حالت میں کہ صحتِ عامہ سے متعلق بہت سے آئٹمز پر ٹیکس بڑھادیے گئے ہیں۔

بہت سے ماہرین نے صحتِ عامہ اور دواسازی کے شعبوں کو مرئی اور غیر مرئی فوائد کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں۔ اس انڈسٹری کے لیے مہارت اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ اور ہنرمند افرادی قوت لازم ہے۔

یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ حکومتی پالیسیوں میں غیر مستقل مزاجی اور بہت زیادہ مداخلت نے کئی بڑے اداروں اور شخصیات کو دواسازی کے شعبے کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی الوداع کہنے پر مجبور کیا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان دواسازی اور صحتِ عامہ کے حوالے سے بین الاقوامی معاہدوں اور اشتراکِ عمل سے دور ہے جس کے باعث دواؤں کی عالمی منڈی تک رسائی محدود ہے اور برآمدات کی گنجائش بہت کم ہے۔۔۔۔۔۔۔

Read Comments