کراچی کے گلستان جوہر تھانے میں گاڑی جھڑوانے کے معاملے پر پولیس اور وکلا کے درمیان تلخ کلامی ہاتھا پائی میں بدل گئی جس کے بعد وکلا نے احتجاجاً تھانے کے باہر دھرنا دے دی، جس کے بعد پولیس اور وکلا کے درمیان جھگڑ ے کا مقدمہ ایس ایچ او گلستان سمیت 15 اہلکاروں کے خلاف درج کرلیا گیا۔
کراچی کے گلستان جوہر تھانے میں پولیس اور وکلا کے درمیان جھگڑ ے کا مقدمہ ایڈووکیٹ قادر بخش کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
مقدمے میں ایس ایچ او گلستان جوہر راجہ تنویر سمیت 15 سے زائد اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ مقدمے میں دہشت گردی، اقدام قتل، تشدد اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق واقعہ رات ساڑھے 8 بجے پیش آیا، عدالتی حکم پر گاڑی ریلیز کرانے آئے تھے، پولیس نے وکلاء سے بدتمیزی کی، ایس ایچ او اور اسٹاف کی جانب سے مدعی سمیت دیگر وکلا کو تشدد کانشانا بنایا گیا، پولیس کی جانب سے وکلا پر فائرنگ بھی کی گئی، پولیس کے تشدد سے پانچ سے چھ وکلا زخمی بھی ہوئے۔
اس سے قبل گزشتہ روز کراچی کے گلستان جوہر تھانے میں گاڑی جھڑوانے کے معاملے پر پولیس اور وکلا کے درمیان تلخ کلامی ہاتھا پائی میں بدل گئی جس کے بعد وکلا نے احتجاجاً تھانے کے باہر دھرنا دے دی۔
پولیس حکام کے مطابق سادہ لباس میں ایک شخص ایس ایچ او کے سائیڈ روم میں آیا، مذکورہ شخص نہ تو وکیل کے یونیفارم میں تھا نہ ہی اس نے اپنا تعارف کرایا۔
پولیس کا مزید کہنا تھا کہ بغیر اجازت ایس ایچ کے سائڈ روم میں داخل ہونے والا وکیل گاڑی ریلیز کے غرض سے آیا تھا جو ایس ایچ او کا اختیار نہیں ہے، وکیل کو کمرے سے باہر جانے کا کہا تو اس نے گالم گلوچ کرنا شروع کردی اور کہا اب دیکھنا کتنے لوگ آئیں گے۔ کچھ دیر بڑی تعداد میں وکلا آئے اور تھانے کے گیٹ پر حملہ کیا، پولیس اور وکلا میں ہاتھا پائی اور لاٹھی چارج ہوئی جس کی زد میں پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔
جبکہ وکلا نے بھی اپنے ساتھیوں پر پولیس تشدد کا دعوی کردیا اور احتجاجی دھرنا دیدیا صدرسندھ بارکونسل نے کہتے ہیں ایس ایچ او پر مقدمہ درج کرائے بغیر نہیں جائیں گے۔
دوسری جانب متاثرہ وکیل قادر راجپر کا بیان بھی سامنے آگیا،ایڈوکیٹ قادر راجپر کاکہنا ہے کہ میں اپنے کلائنٹ کی گاڑی ریلیز کران کے آرڈر لے کر آئی او کے پاس آیا ، میں آئی او سے ملا ہوں جس نے گاڑی ریلیز کرنے کا کہا ایس ایچ او نے کہا کہ گاڑی کی تصدیق کراوں گا، میں نے کہا کہ آپ کو گاڑی کھولنے کا اختیار نہیں ہے، جس پر گریبان سے پکڑا اور کہا کہ اسے لاکپ کریں، ایس ایچ او نے کہا کہ میرے کمرے سے باہر نکلو یہ میرا ذاتی کمرہ ہے میں نے کہا کہ مجھ پر ایف آئی آر کریں جیل بھیجیں میں نہیں جاوں گا جس کے بعد مجھے مار کر پولیس والوں نے باہر نکالا ہے۔
وکیل قادر راجپر نے الزم عائد کیا کہ مجھ پر ایس ایچ او نے تشدد کیا، انگلی توڑ دی، سر پر بھی چوٹ آئی۔ جبکہ پولیس نے میرے دوست نبیل کو سرپھاڑ دیا ہے۔
صدر کراچی بار عامر نواز وڑائچ نے تھانے کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے عدالتی احکامات ماننے سے انکار کیا گیا اور وکلا کے ساتھ بد تمیزی کی اور تشدد بھی کیا۔ عامر وڑائچ نے الزام لگایا کہ پولیس تشدد سے 4 وکلا بھی زخمی ہوئے ہیں ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ بھی کی، جب تک تھانیدار کو معطل نہیں کیا جاتا احتجاج جاری رہے گا۔