سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا پاکستان مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر اپنی نئی سیاسی جماعت لانچ کرنے پر کہنا ہے کہ میں نے سیاست چھوڑی نہیں تھے، میں سیاست سے پیچھے ہٹا تھا۔
مفتاح اسماعیل نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں خصوصی شرکت کے دوران اپنی نئی سیاسی جماعت اور موجودہ ملکی معاشی صورت حال پر گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل شاہد خاقان عباسی، میں اور دیگر ”ری امیجننگ پاکستان“ کر رہے تھے، ہماری کوشش تھی کہ اس وقت جو سیاسی جمود تھا اس میں کچھ بہتری آئے، ہم بار بار کہتے رہے کہ تمام سیاسی لیڈرز اور اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بیٹھ کر راستہ نکالنا چاہئیے ورنہ الیکشن بھی بے مقصد ہوجائیں گے، لیکن یہ بات نہیں سنی گئی اور پھر آپ نے دیکھا کہ الیکشنز کیا ہوئے اور اس کا نتیجہ کیا نکلا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں ؛گتا کہ اس وقت کوئی سیاسی جماعت ایسی ہے جو پاور پالیٹکس کے علاوہ اصولی بنیادوں پر سیاست کر رہی ہے، ہم نے اس بجٹ میں دیکھ الیا کہ عوام کی کسی کو فکر نہیں ہے تو ہم نے اب آپنی آواز کھڑی کی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں اگر آپ کے پاس پارلیمان میں اکثریت نہیں تو آپ کو وزیراعظم نہیں بننا چاہئیے۔ غیر جمہوری طریقے سے کسی وزیراعظم کو ہتانا مناسب نہیں لیکن جمہوری طریقے سے وزیراعظم کو ہٹانے میں کوئی بری بات نہیں۔
نئی پارٹی میں مصطفیٰ نواز کھوکھر اب ساتھ کیوں نہیں؟ اس سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ مصطفیٰ نواز کا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے پارٹی بنائیں، اس وقت شاہد خاقان نہیں سمجھ رہے تھے کہ پارٹی کا کوئی چانس ہے کیونکہ ہم نے حلقوں میں دیکھا تھا کہ عمران خان کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کر رہا تھا، اب مصطفیٰ نواز کا خیال ہے کہ سیاست میں اسپیس تو بہت ہے لیکن وقت ٹھیک نہیں ہے ،کیونکہ سیاست میں بہت سی چیزیں ہو رہی ہیں، اداروں کا آپس میں ٹکراؤ ہے، جبکہ میرا اور شاہد خاقان کا خیال ہے کہ اسی وقت ہمیں اپنی آواز بلند کرنی چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ ’مصطفیٰ اور ہمارا ٹائمنگ کے اوپر تھوڑا سا فرق ہے، باقہ وہ ہمارے سے دور نہیں ہے۔‘
آپ کی پارٹی ”عوام پاکستان“ کا ویژن کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 1990 کی دہائی میں پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے امیر ملک تھا، آج سب ہم سے آگے نکل گئے ہیں، سوائے افغانستان کے ہم سب سے پیچھے رہ گئے ہیں، ہمیں سمجھنا چاہئیے کہ ہم کچھ نہ کچھ غلط کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری سیاست ٹھیک نہیں ہے، مسلح افواج اور عدالت کا سیاست میں بہت عمل دخل ہے، ہماری ملک کی معیشت بہت زیادہ اشرافیہ کے قبضے میں ہے، یہ صرف کہنے کی بات نہیں ہے، بجٹ، قوانین اور آئینی ترامیم دیکھ لیں کہ ہم جاگیرداروں اور امیر ترین لوگوں کو تحفظ دیتے ہیں اور ٹیکس غریبوں پر لگاتے ہیں، تعلیم کا نظام ناقص ترین ہے، حکومتی خدمات اور ادارے ٹھیک نہیں ہیں، ہم جب یہ چیزیں دیکھتے ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ اس نظام کو بدلنا ہوگا، ہمیں اشرافیہ سے اس نظام ہو ہٹکا کر غریبوں کو تحفظ دینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تمام پاکستانیوں چاہے وہ مرد ہو یا عورت یا ملک کے کسی بھی حصے سے ہو اسے بلا تفریق آگے بڑھنے کا موقع دینا ہے۔ نوجوانوں کا ان کی زندگی پر کنٹرول دینا ہے، تاکہ وہ کسی ایس ایچ او یا پٹواری کے آگے این او سیز کیلئے کھڑے نہ ہونا پڑے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم تنخواہ لے لیں لیکن فیصلے ٹھیک کریں، 500 ارب روپیہ ترقیاتی بجٹ کا بہت بڑی رقم ہے، اسے ٹھیک کریں، 30 ہزار ارب روپیہ چاروں صوبے اور وفاق کی حکومتی اپنے اخراجات پر خرچ کر رہی ہیں جو ہماری قومی آمد کے 25 فیصد کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف یہ حالت ہوگئی ہے کہ آپ بچوں کے دودھ اور دل کے مریض کے اسٹنٹ پر ٹیکس لگا رہے ہیں دوسری طرف آپ ایم این ایز اور ایم پی ایز کے پروجیکٹس پر 500 ارب روپیہ خرچ کر رہے ہیں یہ شرم کی بات نہیں ہے؟ پھر آپ 24 فیصد جاری اخراجات بڑا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایک ہزار 18 ارب روپے پنشن ہے، جس میں سے 600 یا 662 ارب روپے دفاعی اداروں کی پنشن ہے باقی 350 ارب روپے باقی سویلین کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنشنز میں ریفارمز ہونی چاہئیں، دو دو پنشنیں نہیں ملنی چاہئیں، پنشن تنخواہ سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیے، جس اسپیڈ سے پنشن بڑھ رہی ہے آٹھ سال میں پنشن دفاع سے زیادہ ہوجائے گی پھر ہم پنشن نہیں دے پائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجٹ میں جو غلطیاں کی گئی ہیں، محمد اورنگزیب صاحب اس کے مرتکب نہیں ہوسکتے، جب آپ قوم سے اتنی قربانی مانگ رہے ہیں تو پی ایس ڈی پی کا اتنا خرچہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اگر اورنگزیب صاحب کی یا فنانس منسٹری کی سنی جاتی تو وہ این ایف سی ایوارڈ کی بھی بات کرتے، صوبوں کے پیسے کچھ کم کرتے، زراعت اور پراپرٹی ٹیکس بھی بھی صوبوں سے لے کر وفاق کو دے دیتے، جب حالات اتنے خراب ہیں تو ہمیں نظر تو آئے کہ وفاق اور صوبوں نے کوئی حصہ ڈالا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو آئی ایم ایف کی شرائط نہیں تھیں اور فضول ڈالی گئی ہیں، آئی ایم ایف نے کہا تھا این ایف سی ایوارڈ کو دیکھو، براپرٹی اور زراعت کو ٹیکس کرو، آئی ایم ایف نے کہا ایران سے اسمگل ہوکر پٹرول آرہا ہے اس پر پی ڈی ایل لگاؤ، وہ آپ نے نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے نہیں کہا تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگائیں۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ بجٹ پورا سال برقرار رہے گا، اس میں بہت سے ایسے سقم ہیں کہ انہیں اس پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ جب ان کی نااہلیوں کی وجہ سے دنیا نے قرض دینا بند کردیا تو آئی ایم ایف نے انہیں کہا کہ ہم آپ کو قرض دیں گے آپ اپنی نااہلی عوام پر منتقل کر دو۔
ایک اور سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آپ بجٹ کے کسی حصے کو چھیڑ نہیں سکتے، اگر دفاع آپ کو معلومات نہیں دیتا تو ریلوے بھی نہیں دے رہا ہوتا، یہاں سب مقدس گائیں ہیں اور ان مقدس گائیوں کیلئے ایک بڑے قصائی کی ضرورت ہے۔