سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیرآئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ تھے۔
کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز پوچھے گئے عدالتی سوالات سے دلائل کا آغاز کروں گا، 2018 کے انتخابات میں مخصوص نشستیوں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ مانگا گیا تھا، 2002 اور 2018 کے انتخابات میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزاد امیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوںگی جب کم ازکم ایک نشست جیتی ہوگی۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کردیا۔
انہوں نے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، 3 پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 265 نشستوں پر نافذ ہوا، 2018 میں 60 خواتین اور 10 غیرمسلم سیٹیں مخصوص تھیں۔
اٹارنی جنرل نے 2002 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی عدالت کو آگاہ کردیا، انہوں نے بتایا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔
منصور عثمان اعوان نے مزید کہا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کیے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے، ایک جماعت کے ووٹرز کو انتخابی عمل سے ہی باہر کردیا گیا، آئین کی بنیاد ہی جمہوریت پر کھڑی ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میری گزارشات کے آخری حصے میں اس سوال کا جواب ہوگا، سوال ہے کیا آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل میں آزاد امیدواروں کی شمولیت ہو سکتی ہے، کیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی اہل ہے یا نہیں؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی تعداد 2024 میں بہت بڑی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے مطابق کسی صورت کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جاسکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر اسمبلی مدت ختم ہونے میں 120 دن رہ جائیں تو آئین کہتا ہے انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کوآزاد نہیں قراردیا؟ جب ایسا ہوا ہے توکیا عدالت کویہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیئے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جواس غلطی کا ازالہ کرے؟۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے اندر 4 ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل51 میں سیٹوں کا زکر ہے، ممبرشپ کا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعائت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، اصل مسئلہ الیکشن کمیشن کی غلطی کے سبب پیش آیا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، اگر متبادل طریقے موجود ہیں تو درستگی ہونی چاہیئے، آئین سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل انجن ہی پولیٹیکل پارٹیز ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا مطلب ہے کہ عوامی نمائندگی جھلکنی چاہیئے، جس پر منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 51 ڈی کے تحت آزاد اراکین کو الگ رکھا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پراتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں، موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا یہ ان کاکام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ فیصل صدیقی نے کہا تھا اگر سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں ملتی تو خالی چھوڑ دیں، پارلیمانی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے انتخابات میں نشست جیتی ہو، پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے، پارلیمانی پارٹی کی مثال غیر متعلقہ ہے کیونکہ اس معاملے کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرچکا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے پھر پوچھا کہ الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرتا ہے؟ پارلیمانی پارٹی قرار دینے کا نوٹیفکیشن کیسے آیا؟ وہ نوٹیفکیشن سنی اتحاد کونسل نے ریکارڈ پر رکھا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جواب الجواب دلائل میں وہ خود بتا دیں گے، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ وہ نہیں، آپ بتائیں الیکشن کمیشن کے اس نوٹیفکیشن پر کیا کہتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹیفکیشن اٹارنی جنرل کو دکھادیا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن بھی دکھا دیا۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نوٹیفکیشن سے زرتاج گل کوپارلیمانی لیڈر بھی بنا چکا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد امیدوار پارلیمانی پارٹی نہیں بنا سکتے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰنے کہا کہ یعنی سیاسی جماعت کے جیتے ہوئے امیدوار ہوں تو سیاسی پارٹی آٹومیٹکلی پارلیمانی پارٹی بن جاتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار پارٹی بنا لے تو آرٹیکل 51 نافذ نہیں ہوگا، آزاد امیدوار کی اسمبلی سے باہر تو پارٹی تصور کی جائے گی، جس پر منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آزاد امیدوار کسی ایسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا جو پارلیمانی پارٹی نہ ہو۔
چیف جسٹس فائز عیسی نے کہ پوچھا کہ اس نوٹیفکشن کی حیثیت کیا ہے؟ ڈپٹی رجسٹرار کے خط کو سپریم کورٹ کا مؤقف کیسے مانا جاسکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سرکاری طور پر ہونے والے کمیونکیشن کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کیے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے سے ان نوٹیفکیشنز کا تعلق نہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے علامہ اقبال کے بانگ درا کے شعر کا حوالہ دے دیا دیتے ہوئے کہا کہ مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں، میرا شوق دیکھ اور میرا انتظار دیکھ۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کی تشریح مان لیں تو پارلیمان میں بیٹھے اتنے لوگوں کا کوئی پارلیمانی لیڈر نہیں ہوگا؟ مؤقف مان لیا تو کسی کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ہونے پر کارروائی ممکن نہیں ہوگی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک طرف ہمیں بتایا جاتا ہے الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اب الیکشن کمیشن کا ہی ریکارڈ ان لوگوں کوسنی اتحاد کونسل کا مان رہا ہے، بتائیں نا الیکشن کمیشن انہیں پارلیمانی پارٹی مان کرکیسے نشستوں سے محروم کررہا ہے، الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کو بتارہا ہے کہ ہمارے ریکارڈ میں یہ پارلیمانی جماعت ہے، ریکارڈ کسی وجہ سے ہی رکھا جاتا ہے ناں؟۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایسا ہوسکتا کہ سیاسی جماعت اگر پارلیمانی پارٹی نہ ہو لیکن سیٹ جیتے تو پارلیمانی پارٹی تصور کی جاسکتی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات ہی تعین کریں گے کہ پارلیمانی پارٹی کون ہوگی، آزاد امیدوار اگر ہوں تو پارلیمانی پارٹی میں شامل ہوسکتے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میں آزاد امیدوار کے بارے میں نہیں پوچھ رہی، میں انتخابات میں حصہ لینے کے حق کے حوالے سے پوچھ رہی، آپ کے مطابق سیاسی جماعت ہی پارلیمانی پارٹی بنے گی۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں لیکن ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد پارلیمانی پارٹی بن چکی؟، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگرسنی اتحاد ضمنی انتخابات میں جیتتی ہے توپارلیمانی پارٹی بن سکتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت تصور نہیں کرتا تو پارلیمانی پارٹی کیسے بن سکتی؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی غلط تشریح کرکے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، کیا ایک آئینی ادارے کی جانب سے فیصلے کی غیرآئینی تشریح کی توثیق کرنا چاہتے ہیں؟ کیا الیکشن کمیشن کے غلط فیصلے کی توثیق نظریہ ضرورت نہیں ہوگا۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب اگر آزاد ارکان سنی اتحاد کونسل کے نہ ہوئے تو کہاں جائیں گے، آزاد ارکان کسی جماعت میں نہ گئے توکہاں جائیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد ارکان پھر آزاد ہی رہیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم آنکھیں بند نہیں کرسکتے، ہم اگر پوری پکچر نہ دیکھ سکیں تو پھر مکمل انصاف کے اختیار کو کیا کرنا ہے؟ ہم سب کوپتہ ہے اتنے آزاد امیدوارپی ٹی آئی سے وابستگی دکھا کرکامیاب ہوئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل یہ سادہ اپیل نہیں عوام کے حقوق کا کیس ہے، آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کی غلط تشریح کو قانونی قرار دیں؟۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریماکس دیے کہ انصاف کے اصول کے لیے آئین و قانون پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے، نظریہ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے، جب کچھ ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی اپنی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے، کسی جج سے بدنیتی منصوب نہیں کر رہا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی پٹواری کی زمین کے تنازع کا کیس نہیں جو صرف اپیل تک محدود رہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل میرے سوال کا جواب دیں، کیا ہم الیکشن کمیشن کی غلط تشریح کو نظر انداز کر دیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل مکمل کرلیے، بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، الیکشن کمیشن نے کچھ غیر آئینی کیا ہے تو بالکل اڑا دیں گے، الیکشن کمیشن حقیر ادارہ نہیں نہ ہی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے۔
اس سے قبل 27 جون کو سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا۔
25 جون کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آمر آئے تو سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں۔
24 جون کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔
22 جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے درخواست پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایس آئی سی کے آئین کے مطابق غیر مسلم اس جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا، سنی اتحاد کونسل آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کے خلاف شرط غیر آئینی ہے، اس لیے وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں ہے۔
4 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی سارے مسئلے حل ہو جاتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا۔
3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔
31 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دیا تھا۔
4 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے مقدمے کی سماعت کی مقرر کردہ تاریخ تبدیل کردی تھی۔
3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
واضح رہے کہ 6 مئی سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔
3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
یاد رہے کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔
چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔
الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔