وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ منی بجٹ نہیں آئے گا، شرح سود میں کمی کی گنجائش موجود ہے، پاکستانی کرنسی مستحکم رہے گی، ریٹیلرز پر ٹیکس اطلاق ہونے جا رہا ہے، نان فائلرز کیلئے مارجن ہم سزا کی حد تک لے گئے ہیں، نان فائلرز اب تین چار پانچ بار ضرور سوچیں گے کہ وہ ٹیکس نیٹ میں کیوں نہیں آرہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”نیوزانسائٹ ود عامر ضیا“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ آگے جا کر تنخواہ دار طبقے کو بتدریج ریلیف دیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ منی بجٹ نہیں آئے گا، جن چیزوں پر ٹیکس استثنیٰ (چھوٹ) دی ہے جیسے خیراتی اسپتال، بکس، میڈیکل آلات، فرٹیلائز وغیرہ ان کا استثنیٰ برقرار رہے گا۔
اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ بلند شرح سود سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس حوالے سے میری ذاتی رائے ہے کہ شرح سود میں کمی کی گنجائش موجود ہے۔
ایف بی آر نے مالی سال 2024 کے مقررہ ہدف سے زائد ٹیکس اکٹھا کرلیا
انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہے، کوشش ہے اس مہینے آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈالر ختم ہو جاتے ہیں تو آئی ایم ایف پروگرام کی طرف جانا پڑتا ہے۔
آئی ایم ایف کا 10 جولائی سے قبل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا مطالبہ
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ میکرو اکنامک استحکام میں تسلسل لانے کی ضرورت ہے اس لئے ہمیں آئی ایم ایف پروگرام چاہیے، کوشش ہوگی کہ اس مہینے آئی ایم ایف معاہدوں کو اسٹاف لیول ایگریمنٹ تک لے جائیں۔
محمد اورنگزیب نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی کرنسی اب مستحکم رہے گی، آئی ایم ایف ہو یا نہ ہو آئی ٹی اور زراعت ہمارے گروتھ ایریاز ہیں، گزشتہ مالی سال میں دونوں سیکٹرز نے اچھے نتائج دیے مستقبل میں مزید بہتر پرفارمنس آئے گی۔
انھوں نے کہا کہ ورلڈ بینک نے ایک ارب ڈالرز کی منظوری دی ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام سمجھنے کی ضرورت ہے، اس پروگرام کو پاکستان کا پروگرام کہنا چاہیے، اگر بنیادی ڈھانچے کی اصلاحات نہ کیں تو معاملات بگڑیں گے، ہمارے ہاں پالیسی اور انفورسمینٹ گیپ ہیں۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ساڑھے 9 فیصد سے ملک نہیں چل سکتا، ٹیکس ٹو جی ڈی پی 13 فیصد تک لے جانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسٹر کچرل ریفارمز بہت مشکل کام ہے، ڈسٹری بیوشن کمپنیز سے پولیٹکل اتھارٹیز کو ہٹانا دشوار ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں باہر پیسہ دے دیں گے لیکن ایف بی آر کے ساتھ ڈیل نہیں کریں گے، سالوں سال سے لیکجز چلی آرہی ہیں، ڈیجیٹائزیشن کی طرف جا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ نان فائلرز کا معاملہ بھی بہت اہم ہے، نان فائلرز کیلئے مارجن ہم سزا کی حد تک لے گئے ہیں، نان فائلرز اب تین چار پانچ بار ضرور سوچیں گے کہ وہ ٹیکس نیٹ میں کیوں نہیں آرہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جون کے آخر تک کے سیلز ریفنڈز جلد کلیئر کردیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ 6 سال میں خود سیلریڈ کلاس کا حصہ تھا، میں بینکنگ سیکٹر میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا تھا۔
ترقیاتی منصوبوں کی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ڈی پی کا 81 فیصد جاری منصوبوں کیلئے ہے، جب کہ 19 فیصد نئے منصوبوں کیلئے ہے۔