وہی ہوا جس کا بہت سوں کا اندازہ تھا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میلہ جن کے لیے سجایا گیا تھا اُنہی کے نام رہا۔ آئی سی سی کو مبارک ہو کہ اُس کے ہاں ایک اور ورلڈ کپ ہوا ہے۔ یہ بات کرکٹ کے عام شائقین کی زبان پر نہیں اور نہ ہی ”نظریہ سازش“ پر یقین رکھنے والے قیاس بازوں نے کہی ہے بلکہ یہ تو برطانوی نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے تجزیے میں کہی گئی ہے جو سمیع چودھری کا تحریر کردہ ہے۔
”مبارک ہو، ورلڈ کپ ہوا ہے“ کے زیرِ عنوان لکھا گیا ہے کہ کرکٹ میں اب مال ہی مال ہے اور براڈ کاسٹنگ رائٹس سے اس قدر کمائی ہوتی ہے کہ براڈ کاسٹرز اب اپنے اپنے انداز سے کھیل پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں یہی ہوا ہے۔
اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بھارت بہت بڑی کرکٹ مارکیٹ ہے۔ آئی سی سی کو براڈ کاسٹنگ کی کمائی کے لیے بھارت پر متوجہ رہنا ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کمائی کے لیے لازم ہے کہ بھارت اور خطے کے دیگر ممالک میں غیر معمولی تعداد میں لوگ کرکٹ پر متوجہ رہیں۔ یہ بات بھی اب پوشیدہ نہیں رہی کہ بھارتی شائقین کی سہولت کو جواز بناکر آئی سی سی نے بھارت کو وہ سہولتیں فراہم کیں جو اینڈی فلاور کے بقول منصفانہ نہ تھیں۔
کچھ دن قبل بھی یہ سوال ایک بھارتی کرکٹر نے اٹھایا تھا کہ آئی سی سی کی طرف سے بھارت کو نوازا جارہا ہے۔ بھارت کے میچ دن کے اوقات میں رکھے گئے۔ بھارتی ٹیم کو بہت پہلے سے معلوم تھا کہ ٹرافی تک رسائی کے لیے انہیں کوئی نائٹ میچ نہیں کھیلنا پڑے گا۔
معاملہ یہیں تک نہیں رہتا بلکہ بھارتی ٹیم کو یہ بات بھی ہفتوں پہلے سے معلوم تھی کہ سیمی فائنل میں پہنچنے پر میچ کہاں اور کب ہوگا۔ کوچ راہل ڈریوڈ اور کپتان روہت شرما جانتے تھے کہ گیانا میں اسپنرز زیادہ کامیاب رہیں گے۔ اور یہ بھی کہ انہیں امریکا سے نکلنے کے بعد کیریبین خطے میں کیسی ٹیم درکار ہوگی۔
یہ تمام باتیں ایسی ہیں جنہیں دیکھے ہوتئے کئی سابق اور موجودہ کرکٹرز یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آئی سی سی نے بھارتی کرکٹ اور بھارتی کرکٹ مارکیٹ کو رِجھانے کے لیے یہ میلہ سجایا تھا۔ انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے بھی آئی سی سی کی شیڈولنگ کو زیادتی قرار دیا ہے۔
لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ سب رعایتیں نہ ملنے پہ روہت شرما کی ٹیم ٹرافی نہیں اٹھا سکتی تھی۔ یہ ٹیم بلا شبہ اس قابل ہے اور یہی اس کے پچھلے دو برس میں بارہا آئی سی سی ٹائٹل کے قریب پہنچنے کا سبب بھی ہے مگر ہر بار یہ ٹیم ٹائٹل کے عین پاس آ کر چکرا جاتی تھی۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بھارتی ٹیم میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے کی صلاحیت نہ تھی تاہم یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بھارتی ٹیم چند برس کے دوران آئی سی سی کے ٹائٹلز کے بہت نزدیک پہنچ کر ناکامی سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ فائنل تک تو وہ پہنچتی تھی مگر اُس کے بعد لڑکھڑا جاتی تھی۔
فائنل میں جب جنوبی افریقا کے لیے ہدف 30 گیندوں پر 30 رنز رہ گیا تھا اور 6 وکٹیں بھی ہاتھ میں تھیں تب کلاسن کی روانی روکنا لازم ہوچکا تھا۔ اس کے لیے رشبھ پنت نے انجری کا بہانہ کیا اور میچ کچھ دیر کے لیے روکا گیا۔
رشبھ پنت کی بحالی کی کوشش کے دوران کلاسن کی بیٹنگ کو لگام پڑی رہی اور اِس کے بعد وہ خاصی باہر کی گیند کو کھیلتے ہوئے وکٹ کیپر پنت کو کیچ دے بیٹھے۔ اس بات کو کمینٹری بکس میں بیٹھے ہوئے روی شاستری نے بھی محسوس کیا اور (میچ رکوانے کے حربے کو) بھارت کی فرسٹریشن سے تعبیر کیا۔