امریکا سمیت مغربی دنیا میں جھوٹ بولنے کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سابق صدر بل کلنٹن کا مواخذہ اس بات پر نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے مونیکا لیوئنسکی سے معاشقہ لڑایا تھا بلکہ وہ جھوٹ بولنے پر پکڑے گئے تھے۔
امریکی عوام اس بات کو بہت اہمیت دیتے ہں کہ جنہیں وہ ووٹ دے رہے ہوں وہ کردار کے بلند ہوں یعنی جھوٹ نہ بولیں اور جہاں تک ممکن ہو اپنی ذمہ داری قبول و تسلیم کریں۔
ایسے میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ امریکا میں صدارتی امیدواروں پوری قوم، بلکہ دنیا کے سامنے پیش کیے جانے والے مباحثے کے دوران جھوٹ بولیں، غلطی بیانی سے کام لیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دو دن قبل صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والے مباحثے میں فریقین نے متعدد بار جھوٹ بولا، غلط بیانی کی۔ امریکی میڈیا نے غلط بیانیوں کا کچا چٹھا کھول دیا ہے۔
ایک اخبار کے تجزیے کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے بتایا ہے کہ مباحثے میں صدر بائیڈن نے 9 بار غلط بیانی کی جبکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 30 بار جھوٹ بولا۔ ٹرمپ نے اسقاطِ حمل کے حوالے سے جھوٹ بولا۔
ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں دہشت گردی نہ ہونے، یوکرین کو یورپ سے زیادہ امداد دینے اور دارالحکومت میں ریاستی عمارتوں پر حملوں کے حوالے سے نینسی پیلوسی کے اقدامات پر بھی جھوٹ بولا۔
سی این این کے مطابق ٹرمپ کا یہ دعوٰی بھی جھوٹ پر مبنی تھا کہ ریٹائرڈ فوجیوں کی بہبود کا پروگرام انہوں نے کانگریس میں پیش کیا۔ ان کا یہ کہنا بھی جھوٹ کے زمرے میں شمار ہوا کہ اس وقت امریکا کا بجٹ خسارہ سب سے زیادہ ہے اور یہ کہ چین سے تجارت میں امریکا خسارے سے دوچار ہے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق صدر بائیڈن نے صحتِ عامہ کی پالیسی کے اعداد و شمار میں دو بار جھوٹ بولا۔ ان کا اپنے عہدِ صدارت میں کسی امریکی فوجی کی ہلاکت واقع نہ ہونے کا دعوٰی بھی جھوٹ پر مبنی تھا۔
ساتھ ہی ساتھ صدر بائیڈن نے ارب پتی امریکیوں پر لگائے جانے والے ٹیکس کی شرح کے حوالے سے بھی غلط بیانی کی۔ ان کا یہ کہنا بھی جھوٹ تھا کہ جب انہوں نے صدر کا منصب سنبھالا تک ملک میں بے روزگاری کی شرح 15 فیصد تھی۔
سابق امریکی صدر براک اوباما نے مباحثے کے دوران صدر بائیڈن کی طرزِ فکر و عمل کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کبھی کبھی ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں خراب مباحثے والی راتیں بھی ہوا کرتی ہیں۔