پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے بھائی کی عدم بازیابی پر عدالت کے حکم پر آئی جی پنجاب عثمان انور لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے، مغوی کی بازیابی پر قابل اطمینان جواب نہ دینے پر عدالت کا آئی جی پنجاب پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس امجدرفیق نے استفسار کیا کہ پولیس نےکیا ہرچیزکی محکمہ داخلہ سےاجازت لینی ہے؟ اگرپولیس ایک بندے کو نہیں ڈھونڈ سکتی توپھرہم کسے کہیں؟ کل یہی لوگ عدالتوں میں ریلیف لینے کیلئے کھڑے ہوں گے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ حکومت نے اسی کام کیلئے آرگنائزرکرائم یونٹ بنایا ہے۔ جسٹس امجدرفیق نے کہا کہ ہمیں بتائیں یہ کون لوگ ہیں جو مغوی کو اٹھاکرلےگئے،کیا طالبان تھے،آپ کے پاس تو ایسےلوگوں کی لسٹ ہوگی۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ مغوی کی آخری لوکیشن بحریہ ٹاؤن کی ہے، جیوفینسنگ کیلئےڈیٹا چاہیے، ہمیں جیو فینسنگ کیلئے اجازت دی جائے۔
جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم نے اجازت دینی ہے، اتنے معصوم لوگ ہیں آپ؟ آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ موبائل کمپنیاں ہمیں ڈیٹا نہیں دے رہیں،آپ کی اجازت درکارہے۔
جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ سی ڈی آرکیلئےمیں الگ،جیوفینسنگ کیلئےالگ ہدایت دوں، آپ لوگوں کی اپنی عقل کام نہیں کرتی۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ جیو فینسنگ سی ڈی آر سے مختلف ہوتی ہے، جیو فینسنگ میں اس علاقے کے ٹاورز کا ڈیٹا ملتاہے۔
جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ کتنی دیر میں یہ ہوجائےگا،کیا6ماہ میں ہو جائے گا، آئی جی کوکون تعینات کرتا ہے، وزیراعلیٰ یاوفاقی حکومت ؟ میں ان سے پوچھوں کیسےآئی جی لگاتے ہیں جویہاں آکرکہانیاں سناتےہیں۔
اس موقع پر عدالت کا وکیل سے مکالمہ ہوا کہ پولیس آپ کے بندے کونہیں دیناچاہتی،آپ کو سمجھ آگئی؟ وکیل درخواست گزارنے کہا کہ شہبازگل نےہمیں پیغام پہنچایاہےکہ انہیں فون آیاہے، شہبازگل کوکہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ دیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا بندہ ایجنسیوں کےپاس ہے، آئی جی صاحب ایجنسیوں سے آپ رابطہ کریں۔
عدالت کاآئی جی سےمکالمہ ہوا۔ عدالت نے کہا کہ ایجنسیوں سےپوچھیں آپ پرالزام ہےجواب دیں، موبائل کمپنیز کے نمائندے جیوفینسنگ کے بارے میں جواب دیں۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 4 جولائی تک ملتوی کر دی۔