امریکا میں صدارتی انتخاب میں اب پانچ ماہ رہ گئے ہیں مگر الیکٹوریٹ اب تک پریشان کن حد تک شش و پنج کا شکار ہے۔ امریکی ووٹرز طے نہیں کر پارہے کہ صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کسے اپنی اولین ترجیح قرار دیں۔
امریکا کے مختلف ریاستوں میں تین دن کے دوران مکمل کیے جانے والے رائے عامہ کے ایک بڑے جانزے کے مطابق ووٹرز مختلف اشوز کے حوالے سے منقسم ذہن کے حامل ہیں۔
ووٹرز کی واضح اکثریت معاشی معاملات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرزِ فکر و عمل کو بہتر گردانتی ہے اور اُس کا خیال ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو ملکی معیشت استحکام کی طرف بڑھے گی۔
ساتھ ہی ساتھ ووٹرز کی اکثریت یہ بھی تصور کرتی ہے کہ جمہوریت اور سیاسی اقدار و روایات کے حوالے سے صدر جو بائیڈن زیادہ موزوں شخصیت ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اپنا منصب برقرار رکھنے میں کامیاب ہونے پر صدر بائیڈن جمہوریت کو مزید مستحکم کریں گے، سیاسی روایات کو مضبوط بنائیں گے اور اظہارِ رائے کی آزادی کا دائرہ وسیع کرنے پر کام کریں گے۔
امریکا میں ووٹرز کی اکثریت اب تک طے نہیں کر پائی کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے حوالے سے کیا موقف اپنایا جائے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے میں انتہائی طرزِ فکر و عمل اختیار کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو ملک بھر سے تمام غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکال باہر کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان یا انتباہ اُن لوگوں کے لیے بہت پریشان کن ہے جو غیر قانونی تارکینِ وطن کی شکل میں سستی افرادی قوت آسانی سے حاصل کر پاتے ہیں۔ دوسری طرف صدر جو بائیڈن غیر قانونی تارکینِ وطن کے حوالے سے معتدل طرزِ فکر و عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے امریکی سرزمین پر آباد قانونی اور غیر قانونی تارکینِ وطن کی دل آزاری ہو۔