پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستانی انتخابات پر تحقیقات کے حوالے سے منظور ہوئی قرارداد سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شیری رحمان نے کہا کہ ہاؤس ریزولوشن 901 نومبر 2023 میں پیش کی گئی تھی، دو کانگریس مین نے کافی مثبت اور تعمیری باتیں کیں، اس پر بحث کرتے ہوئے کانگریس مین ڈین کلڈی نے تھوڑی پاکستان مخالف تنقید کی جو کہ نارمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں بہت لابنگ ہوئی ہے، وہاں بہت سے فنڈز کا تبادلہ ہوا ہے، میں بتا نہیں سکتی کہ کس کو، یہ وہاں الیکشن کا سال ہے اور لابنگ بہت ہو رہی ہے۔
شیری رحمان نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب انہیں اپنے مفاد میں لگتا ہے جب بھی لگتا ہے یہ ملک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور دیگر مماملک بھی وہاں لابنگ کرتے ہیں جب انہیں اپنے ملک کیلئے کوئی بات منوانی ہوتی ہے، لیکن یہاں ایک دوسری کی کٹوتیاں چل رہی ہیں اور جو فنڈنگ ہو رہی ہے وہ اس لئے کہ پاکستان کو بری نظر سے دیکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی لابنگ کی لیکن کبھی پاکستان کی ساکھ کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔
پاکستانی ایمبیسی اور رجیم نے قرارداد ناکام بنانے کیلئے امریکہ میں پورا زور لگایا، شہباز گل
شیری رحمان نے کہا کہ پہلے انہوں نے سائفر کا اتنا لمبا چکر چلایا کہ مداخلت ہو رہی ہے، اب آپ خود مداخلت مانگ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے سفارتی عملے نے وہاں جب کانگریس مین مچ مکارمک سے بات کی تو یہ معاملہ ایک دم کمزور ہوگیا لیکن یہاں اس کا واویلا زیادہ ہے۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ بھارت کے انتخابات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اتنی رپورٹس جاری ہوئیں انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑا، یہ قرارداد کانگریس نے پاس کی ہے ایڈمنسٹریشن نے نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
سوات مدین واقعے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ایسے واقعات کو انتہائی سنگین قرار دیا اور کہا کہ تنظیمیں لوگوں کو بھڑکا رہی ہیں۔
جماعت اسلامی نے بھی آپریشن عزم استحکام کو مسترد کردیا
پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کی مخلافت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے انہیں کہا گیا ہے روز یہ بات کریں کہ ”پختونوں کا قتل نامنظور“، ہمیں کیوں کسی پاکستانی کا قتل منظور ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم وہاں آپریشن کرکے دہشتگردوں کو ختم کریں گے تو کیا پختونوں کا تحفظ نہیں ہوگا؟