وکی لیکس کے ذریعے پوری دنیا میں تہلکہ مچانے اور حکومتوں کا دھڑن تختہ کرانے والے جولین اسانج ماریانا آئی لینڈز کی عدالت سے رہائی پانے کے بعد آزاد شہری کی حیثیت سے آسٹریلیا سے روانہ ہوکر آبائی شہر کینبرہ پہنچ گئے ہیں، کیونکہ امریکی محکمہ انصاف نے انہیں ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
ماریانا آئی لینڈز کی عدالت کا فیصلے میں کہنا تھا کہ جولین اسانج کیس دس مہینے پہلے لایا جاتا تو ڈیل کی درخواست قبول نہیں کی جاتی، جولین اسانج کا باسٹھ ماہ قید میں رہنا منصفانہ ہے۔
ان کے وکیل نے رہائی کو آزادی اظہار رائے کی جیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کا دن تاریخی ہے، وکی لیکس کام جاری رکھے گی۔
جولین اسانج کے خلاف کم و بیش ایک عشرے سے جاری مقدمہ اب اختتام کو پہنچا ہے۔ سائپان کی عدالت میں سماعت کے دوران جولین اسانج نے امریکی فوج کے راز منظرِ عام پر لانے کے ایک معاملے میں غلطی تسلیم کی۔
انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ وطن واپسی کی پرواز کے لیے جولین اسانج کی اہلیہ اسٹیلا نے عطیات کی اپیل بھی کی۔
جج ریمونا ط مینگلونا نے جیل میں گزارے گئے وقت ہی کو سزا میں شمار کیا۔ جج کے مطابق جیل میں گزارے ہوئے 62 ماہ کافی ہیں۔
عدالت سے سزا سننے کے بعد جولین اسانج نے آزادی شہری کی حیثیت سے آبائی وطن آسٹریلیا کا رخ کیا۔ امریکی محکمہ انصاف نے جولین اسانج کے خلاف مقدمے کے خاتمے کے لیے ایک ڈیل کی تھی جس کے تحت اُن کی رہائی ممکن بنائی جانی تھی۔
عدالتی کارروائی سائپان میں کی گئی جو بحرالکاہل میں امریکی کامن ویلتھ کے ایک جُز شمالی میریانہ کا دارالحکومت ہے۔
اس عدالت میں پیشی کے لیے جولین اسانج کو لندن سے بنکاک کے راستے سائپان لایا گیا تھا۔ جولین اسانج کی اہلیہ اسٹیلا نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا تھا کہ وہ اپنا قصور تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لیں گے۔ معافی ملنے کی صورت میں وہ مستقبل میں امریکا واپس جاسکیں گے۔ عدالت میں امریکا کے لیے آسٹریلوی سفیر کیوِن رَڈ اور برطانیہ کے لیے آسٹریلوی ہائی کمشنر بھی جولین اسانج کے ساتھ تھے۔
جولین اسانج نے جو دستاویزات انٹرنیٹ پر جاری کی تھیں ان میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں جنگی جرائم کے ارتکاب کے شواہد بھی شامل تھے۔