پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) باجوہ نے مدت ملازمت میں توسیع کے بدلے ہمیں پنجاب اور وفاقی حکومت دینے کی آفر کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے ٹی ٹی پی کے ساتھ معاملات طے کیے اور ہمیں سرسری سا بریف کیا۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ میں تو آج بھی کہتا ہوں کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو پارلیمنٹ میں بلایا جائے، جنرل باجوہ نے تو مدت ملازمت میں توسیع کے بدلے ہمیں پنجاب اور وفاقی حکومت دینے کی آفر کی تھی۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا حکومت جب تک آپریشن کی تفصیلات نہیں بتاتی حمایت نہیں کریں گے، بیرسٹر سیف
انہوں نے آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے کہا کہ ملک میں اس وقت دہشت گردی کی لہر چل رہی ہے، پاکستان میں دہشت گردی کے پنپنے میں وہ قوتیں شامل ہیں جو ملک کی معیشت خراب کرنے میں شامل تھیں، آپریشن پر تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کیے جائیں گے اور انہیں آپریشن عزم استحکام پر اعتماد میں لیا جائے گا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عزم استحکامِ پاکستان پر پارلیمنٹ اور کابینہ میں بات ہوگی، یہ آپریشن خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوگا۔
نواز شریف کی پارٹی قیادت کو سیاسی استحکام کیلئے کلیدی کردار ادا کرنے کی ہدایت
خواجہ آصف نے ایک سوال کا جاب دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے ہمیں کوئی سپورٹ نہیں ہے لیکن ایران سے سپورٹ ہے کہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان، علی امین گنڈاپور اور ایمل ولی سے آپریشن عزم استحکام پر بات کریں گے، ہر اس تنظیم کے خلاف آپریشن ہوگا جو دہشت گردی میں ملوث ہوگی اور اس کے خلاف واضح ثبوت ہوں گے۔
’آپریشن عزم استحکام‘ دراصل آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا، مولانا فضل الرحمان
ایک اور نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے یہوئے انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے دہشتگردی کی سرغنہ جماعتیں ہیں، پانچ چھ ہزار ٹی ٹی پی کے دہشتگرد پی ٹی آئی کی حکومت میں لائے گئے، ٹی ٹی پی کو پی ٹی آئی کی حکومت میں پناہ گاہیں اور عام معافی دی گئی، جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے ان کے ساتھ معاملات طے کیے اور ہمیں سرسری سا بریف کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سے ایسے منظر کشی کی جیسے سب ٹھیک ہے اور سوات میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، اس بریفنگ میں سیاستدانوں نے سوال اٹھائے، سب سے زیادہ علی وزیر اور محسن داوڑ نے فیصلے کو چیلنج کیا لیکن ان کو بولنے نہیں دیا گیا۔