ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ( ڈی پی او) سوات ڈاکٹر زاہد اللہ خان نے مدین واقعے میں سیاح کو توہین مذہب کے الزام میں مار دئے جانے کے بعد 23 افراد کی گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”آج ایکسکلیوسیو“ میں گفتگو کرتے ہوئے ڈی پی او زاہد اللہ نے بتایا کہ واقعے کے بعد مدین اور اطراف کے علاقوں میں گزشتہ رات ایک گرینڈ آپریشن کیا گیا، جس میں ہم نے 23 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ وہ ملزمان ہیں جو ایف آئی آر میں نامزد ہیں، اور مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور سی سی ٹی وی میں انہیں واقعے میں پیش پیش دیکھا گیا۔
ڈی پی او سوات نے کہا کہ ’محمد سلیمان ولد قمر عزیز سیالکوٹ کے رہائشی ہیں اور انہوں نے ہوٹل میں 18 جون کو اکیلے چیک ان کیا تھا، باقی سوشل میڈیا پر جھگڑے اور ذاتی دشمنی کی باتیں گردش کر رہی ہیں ، اس کی ہمارے پاس تصدیق نہیں ہوسکی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک جو لوگ ہم نے حراست میں لیے ہیں ان میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اور مختلف عمر کے لوگ ملوث پائے گئے ہیں، ایک مخصوص لابی یا مخصوص گروہ کی طرف فی الحال کہنا قبل از وقت ہوگا’۔
مساجد میں اعلانات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ جب واقعہ ہوا تو اعلانات ہوئے، ایک دو مساجد نے اعلانات کرنے سے منع کردیا تو موٹر سائیکل پر لاؤڈ اسپیکر رکھ کر اعلانات کئے گئے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی پی او زاہد اللہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اس کیس میں اچھے ثبوت اکٹھے کرکے کورٹ میں پیش کرسکیں اور انصاف کروائیں۔
وفاقی ادارے کی رپورٹ میں ایس ایچ او کی غفلت اور ملزم کو تھانے لے جانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او جب موقع پر پہنچے تو پہلے ہی ہجوم سے گھرے ہوئے تھے، وہاں سے جب ملزم کو ریسکیو کیا گیا اور واپس جانے لگے تو ہجوم ان کا پیچھا کر رہا تھا، ایس ایچ او اس وقت جو سب سے محفوظ جگہ لگی وہ پولیس اسٹیشن ہی تھا، بدقسمتی سے لوگ بہت تیزی سے امڈ آئے، لیکن میرے خیال میں ایس ایچ او کا جو ایکشن تھا وہ قابل قبول تھا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سوات سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن زگر شیر نے کہا کہ واقعے کی اب جو تفتیش ہوگی وہ اس پر ہوگی کہ قتل کے بعد کیا ہوا، ناکہ اس پر کہ نوبت قتل تک آئی کیوں؟ ایسے کیسز میں یہ حقیقت سامنے آتی ہی نہیں کہ حقیقیت تھی کیا، کیونکہ ملزم دو دن سے ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا، اس نے ایسا کچھ کرنا ہوتا تو دو دن انتظار کیوں کیا؟
انہوں نے کہا کہ جب تفتیش ہوگی تو ملزمان کو سزا دلوانے کیلئے ثبوت ناکافی ہوں اور یہ لوگ چھوٹ جائیں گے۔
کیا طالبان واپس سوات میں اپنا پنجہ جما رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ڈی پی او زاہد اللہ خان نے کہا کہ میرے پاس سوات میں طالبان کی موجودگی کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔