بھارت میں میڈیکل کالجوں میں داخلے کے امتحانات (این ای ای ٹی) اور پی ایچ ڈی اور فیلوشپ کی اہلیت کے لیے ہونے والے امتحان نیٹ (این ای ٹی) میں بے ضابطگیوں اور پرچہ لیک ہونے کی شکایتوں نے تہلکہ مچا دیا ہے۔
پرچہ لیک ہونے کی خبروں نے ان امتحانات کا انعقاد کرنے والے ادارے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کی قابلیت پر سوال اٹھا دیا ہے۔
پرچہ لیک ہونے پر نتائج اور امتحانات منسوخ ہونے باعث لاکھوں طالبعلموں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
یہ اسکینڈل اتنا بڑا ہے کہ اس کی تفتیش بھارت کے بڑے تفتیشی ادارے سی بی آئی کو سونپی گئی ہے۔
نیشنل ایلیجبلیٹی کم انٹرینس ٹیسٹ (این ای ای ٹی) بھارت میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا ویسا ہی دروازہ ہے جیسا پاکستان میں ایم ڈی کیٹ۔ ہر سال لاکھوں طلبہ امتحان میں شامل ہوتے ہیں جن میں سے بہت کم کو کالجوں میں جگہ مل پاتی ہے۔
رواں سال بھارت میں 24 لاکھ بچوں نے میڈیکل میں داخلہ لینے کیلئے اس امتحان میں رجسٹریشن کروائی جن میں سے 23 لاکھ سے زیادہ طلبہ نے امتحان میں شرکت کی۔ چار جون کو قبل از وقت نتائج کا اعلان کیا گیا تو اس میں پہلے کے مقابلے بہت زیادہ بچوں کے پورے نمبر آئے، جس سے اچھے نمبر حاصل کرنے والوں کا بھی داخلہ مشکل نظر آنے لگا۔
اس کے بعد امتحان کے پرچہ میں غلطیوں سے لے کر غیر ضروری گریس مارکس اور دیگر دھاندلیوں کی وجوہات کی بنا پر یہ معاملہ تفتیش کے دائرے میں آگیا۔
اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ پی ایچ ڈی فیلوشپس کے لیے کوالیفائنگ امتحان (نیٹ) کا پرچہ ڈارک ویب پر لیک ہوا ہے جس کی وجہ سے اسے منسوخ کر دیا گیا۔
محکمہ تعلیم اور کئی بڑی جامعات سے جڑے بھارت کے کئی اعلیٰ افسران نے اس بات کی میڈیا کے سامنے تصدیق کی کہ پرچہ لیک ہونا معمول کی بات ہے اور یہ کئی دہائیوں سے ہوتا آرہا ہے، لیکن اس بار یہ معاملہ اسپاٹ لائٹ میں آگیا ہے۔
گریس مارکس کے معاملے پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے، یہ بھی انکشاف ہوا کہ چھ بچے ایہسے تھے جن کا تعلق بی جے پی رہنما کے اسکول سے تھا، ان کے بھی پورے نمبر آئے۔
اس سے قبل گذشتہ سال دو بچوں کو پورے نمبر آئے تھے جبکہ اس سے قبل کوئی بھی پورے نمبر حاصل نہیں کر سکا تھا۔ داخلے کے امتحان کی تاریخ میں پہلی بار پورے نمبر سنہ 2020 میں آئے تھے۔
تعلیم کے شعبے سے منسلک ایک ماہر تعلیم نے کہا کہ ’پورے کھیل کو اس طرح سمجھیے کہ ملک میں سرکاری میڈیکل کالجوں میں کم فیس میں داخلہ مل جاتا ہے اور کم پیسے میں میڈیکل کی ڈگری حاصل ہوتی ہے اور وہاں کا تعلیمی نظام بھی بہتر ہے۔ اس لیے سارے طلبہ کی پہلی کوشش زیادہ نمبر لا کر وہاں جگہ حاصل کرنے کی ہوتی ہے، جبکہ دوسری طرف اتنے ہی پرائیوٹ کالج ہیں جہاں 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک فی ڈگری فیس لی جاتی ہے۔‘
جہاں سرکاری کالجوں میں 720 میں سے 650 نمبر لا کر بھی داخلے کی ضمانت نہیں وہیں پرائیوٹ کالجوں میں آپ 150 نمبر لا کر بھی داخلہ حاصل کر سکتے ہیں اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو، س کی وجہ سے ہونہار، محنتی اور با صلاحیت غریب طلبہ اپنے خواب پورے کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ امیر بچے پرائیوٹ سکولوں سے ڈگریاں لے کر ڈاکٹری کرتے ہیں۔
اسی وجہ سے پرچے لیک ہوتے ہیں اور یہ پرچے لکاھوں میں فروخت ہوتے ہیں، اور اس کا حصہ سیاستدانوں سے لے کر سرکاری افسران تک سب کو جاتا ہے۔