پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد قیصر کی جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات ہوئی، جس میں دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ دونوں رہنماؤں نے قومی اسمبلی میں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر اتفاق کیا۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور سنی اتحاد کونسل کے رکن قومی اسمبلی اسد قیصر نے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے اسلام آباد میں ملاقات کی، جس میں ملک بھر کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے ملک بھر میں بالخصوص خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
مولانا فضل الرحمان نے مشترکہ جدوجہد کے لیے تحریک انصاف سے گارنٹی مانگ لی
دونوں رہنماؤں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتِ حال ابتر ہو چکی، صوبے میں امن کے لیے سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا، فوجی آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں۔
دوران ملاقات دونوں رہنماؤں نے قومی اسمبلی میں مل کر بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر اتفاق کیا۔
اس کے علاوہ دونوں جماعتوں نے بجٹ کو آئی ایم ایف بجٹ اورعوام دشمن بجٹ قرار دے کر مسترد کردیا۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر اور سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے قیام کے لیے کردار ادا کرنے پر اتفاق اور افغانستان کے ساتھ کراسنگ پوائنٹس پر اقتصادی راہداری قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔
مجھے کہا گیا ’بلاول کی پارٹی جوائن کریں گی یا مریم کی‘ شاندانہ گلزار پھٹ پڑیں
ذرائع نے مزید بتایا کہ ملاقات میں دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے، کمیٹی دونوں جماعتوں کے درمیان تحفظات کو دورکرنے اور آئندہ کی سیاسی حکمت عملی کے لیے نکات کا تعین کرے گی۔
واضح رہے کہ 22 مئی کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شمولیت اور مشترکہ جدوجہد کے لیے پاکستان تحریک انصاف سے گارنٹی مانگنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات کا مقصد تعلقات میں بہتری اور تلخیوں کو دور کرنا ہے اور ہمیں ملک کے اندر خوشگوار سیاسی ماحول کی طرف بڑھنا چاہیے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، اسد قیصر اور ساجد ترین پر مشتمل تحریک انصاف کے وفد نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ صورتحال، 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سمیت مختلف امور پر گفتگو کی گئی۔
وزیراعظم کی فضل الرحمان سے ملاقات، مسائل کےحل کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ماحول میں رابطے بڑھتے چلے جائیں، تعلقات میں بہتری اور تلخیوں کو دور کرنا ہمارا مقصد ہے اور ہم اس جذبے کو خوش آمدید کہیں گے۔
یاد رہے کہ 24 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف جلد تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
اسد قیصر نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت کو ان ہاؤس تبدیلی یا نئے الیکشن کے ذریعے ختم کرنے کا آپشن ہے، تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمان اب دور نہیں رہ سکتے، مولانا فضل الرحمان اور ہمارا ایجنڈا ایک ہے اور ان کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف جلد تحریک شروع کریں گے۔
مولانا کی سیاسی سرگرمیوں میں اچانک تیزی، وزیراعظم کے بعد وزیرداخلہ سے ملاقات
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان نے 8 فروری کو منعقد کیے جانے والے عام انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 8 فروری کے انتخابی نتائج میں ملکی وجوہات کے علاوہ بیرونی اثرات نے بھی اہم کردار ادا کیا، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ نے حقیقی مینڈیٹ نہیں دیا کیونکہ امریکا فلسطینی گروپ حماس اور افغان طالبان کے ساتھ ان کی جماعت کے روابط پر ناراض تھا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ان کی جماعت کو پارلیمان سے باہر رکھنے والی ’قوتوں‘ کو خبردار بھی کیا تھا کہ وہ اس معاملے کو عوامی احتجاج کے ذریعے سڑکوں پر لے جائیں گے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کہ الیکشن کے نتائج پر مجھ سے زیادہ نواز شریف پریشان ہیں۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ یہ پارلیمنٹ دھاندلی کی پیداوار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے، پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو رہی ہے، یہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ نہیں ہے، اس پارلیمان میں کچھ لوگ خود کو حکمران کہیں گے مگر یہ لوگ قوم کے دلوں پر حکومت نہیں کرسکیں گے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ 2024 میں دھاندلی کا ریکارڈ توڑا گیا، 2024 میں انتخابی دھاندلی نے 2018 کا بھی ریکارڈ توڑدیا، ہم ان حالات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں نا اس کو قبول کریں گے۔