پاکستان میں پہلا ”ہیومن ملک بینک“ علماء کرام کی جانب سے فتویٰ جاری کئے جانے کے بعد بند کر دیا گیا ہے۔
نجی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹالوجی نے علماء کرام کے اعتراضات اٹھانے کے بعد ملک کے پہلے انسانی دودھ کے بینک کا منصوبہ روک دیا۔
حال ہی میں سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے یونیسیف اور پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن (PPA) کے عہدیداروں کے ساتھ ہیومن ملک بینک کا افتتاح کیا تھا۔
کیا کیسٹر آئل آپ کی آئی بروز کو گھنا کر سکتا ہے؟
اس بینک کا مقصد ان قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو ماں کا دودھ فراہم کرنا تھا جو اپنی ماؤں سے مناسب غذائیت حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹالوجی کے ترجمان نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ہیومن ملک بینک ان اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے جو مسلمان خواتین سے مسلمان بچوں کو ماں کا دودھ مفت فراہم کرے گا، تاکہ کسی تجارتی مضمرات سے بچا جا سکے۔
تاہم اس پر علماء کرام کی جانب سے اعتراض اٹھاتے ہوئے فتویٰ جاری کر دیا گیا۔
ہیومن ملک بینک کی مخالفت میں سینیٹر مولانا عطا الرحمٰن نے بھی اپنا بیان جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ ’پاکستان اسلامی ملک ہے اور قرآن میں نوزائیدہ بچے کی رضاعت کے مسئلے کو اہمیت حاصل ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب اگر عورتیں اپنا دودھ بینک میں جمع کروائیں گی تو اس طرح کوئی نہیں جان پائے گا کہ کس بچے نے کس عورت کا دودھ پیا۔ اسی طرح رضاعی بہن بھائی کا تصور جو مذہب اسلام نے دیا ہے، اس کو بیرونی سازش کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میری ایوان سے گزارش ہے کہ یونیسیف کے اس پروگرام کو فی الفور ختم کیا جائے۔‘
مولانا زاہد الراشدی نے بھی دلیل سیتے ہوئے کہا کہ ’اس طرح دودھ پینے سے یہ پتہ نہیں چلے گا کہ کون کس کا بیٹا اور کون کس کی بہن ہے۔‘
اس حوالے سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹالوجی اس مسئلے پر دارالعلوم کراچی اور اسلامی نظریاتی کونسل سے مزید رہنمائی حاصل کرے گا۔
ادارے کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹالوجی نے انسانی دودھ بینک کے قیام سے قبل دارالعلوم کراچی سے فتویٰ حاصل کیا تھا جس کے بعد ملک بینک کھولا گیا، یہ فتویٰ اس بات کو یقینی بنانے میں اہم تھا کہ ادارے کی کوششیں اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں۔
اعلامیہ کے مطابق یہ فتویٰ 25 دسمبر 2023 کو دارالعلوم کراچی سے جاری ہوا تھا۔ تاہم، 16 جون کو علماء کرام کی جانب سے ایک اور فتویٰ کیا گیا جس نے اس منصوبے کو معطل کر دیا۔