ایران کے شہر شیراز میں ایک شاعر کا مقبرہ لوگوں کو مستقبل بتانے کا مرکز بنا ہوا ہے۔
یہ مقبرہ چودھویں صدی کے ایک معروف فارسی شاعر حافظ شیرازی کا ہے جو آج بھی ایران اور فارسی بولنے اور سمجھنے والوں میں مقبول ترین شعر گو سمجھے جاتے ہیں۔
حافظ شیرازی کے مقبرے پر ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو اپنے سامنے رکھے حافظ کے دیوان یا شاعری کے مجموعے کو کہیں سے بھی کھول کر کسی شعر سے پوچھے گئے سوال کا جواب اخذ کر کے بتا دیتے ہیں۔
ان کی شاعری سے متعلق صدیوں سے چلتی آئی روایات سے جنم لینے والی اس رسم کو ”فالِ حافظ“ کہا جاتا ہے۔
مستقبل کا حال بتانے فال گیر یوں تو پورے ایران میں مل جائیں گے لیکن تہران کے جنوب میں 800 کلو میٹر دور واقع شہر شیراز میں حافظ کے مزار پر یہ خاص طور پر موجود ہوتے ہیں۔ مقبرے کے ساتھ ہی کھلے گلابوں کے باغیچے ان کا سب سے بڑا ٹھکانہ ہیں۔
مقبرے پر موجود کئی فال گیر اپنے ساتھ طوطے بھی رکھتے ہیں۔ یہ طوطے رنگین لفافوں میں سے کوئی ایک اپنی چونچ سے اٹھاتے ہیں اور فال گیر ان میں بند کاغذ پر لکھے حافظ کے شعروں سے فال نکالتے ہیں۔
بھارتی بابا وانگا نے تیسری جنگ عظیم کی تاریخ بتا دی
ایران میں بیسویں صدی کے شروع میں شاعری نے سماجی سطح پر پائے جانے والی مزاحمت کو آواز فراہم کی تھی اور اسی لیے ایران کے سابق بادشاہی نظام میں اختلاف کرنے والے احمد شاملو، فروغ فرخ آباد اور سیمین بہبانی جیسے شعرا کے کلام کو بھی سینسر شپ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
لیکن کسی ایرانی شاعر کو حافظ جیسی قبولیت عامہ حاصل نہیں۔
اس کا ایک ثبوت تو یہی ہے کہ زیادہ تر گھروں میں دیوانِ حافظ کا ایک عمدہ چھپا ہوا نسخہ ضرور ہوتا ہے۔
ایران میں نئے سال کے جشن ”نوروز“ میں خاص طور پر حافظ کے اشعار پڑھے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں شاہی درباروں سے صوفیوں کی خانقاہوں تک کسی بھی اہم کام سے قبل دیوانِ حافظ سے فال نکالنے کے تذکرے بھی ملتے ہیں۔
لیکن حالیہ برسوں میں حافظ کے دیوان سے فال نکالنے کی رسم پر کئی لوگ تنقید کرنے لگے ہیں۔ تاہم، اس مخالفت کے باجود حافظ کے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد ان کا کلام پڑھنے کی مجلسیں منعقد کرتی ہے اور فال نکالنے کی روایت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔