اگر آپ کو دنگل دیکھے ہوئے زمانے گزر چکے ہیں تو دل چھوٹا نہ کریں، مویشی منڈی کا رخ کریں۔ ہم خدا ناخواستہ دیسی پہلوانوں کو جانوروں سے مشابہ قرار نہیں دے رہے! (ویسے آپس کی بات ہے، ایسی قابل رشک صحت جانوروں کے نصیب میں کہاں؟ قربانی کے مسٹنڈے جانور بھی اگر کسی دیسی پہلوان کو دیکھ لیں تو شرم سے پانی پانی ہو جائیں، اپنی ہی نظروں سے گر جائیں!)
ہم نے تو بزرگوں سے سنا ہے کہ قربانی کا جانور مناسب ترین قیمت پر خریدنا دنگل جیتنے سے کم نہیں! بعض لوگ قربانی کا جانور (اپنے خیال میں) موزوں قیمت پر خرید کر خوشی کے مارے پھولے نہیں سماتے اور اِس طرح بھنگڑا ڈالتے ہیں کہ جانور بھی دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں!
مویشی منڈی میں جو کچھ ہوتا ہے وہ لوگوں کو کئی عجیب و غریب ہنر سکھا دیتا ہے۔ بہت سے لوگ یہاں سودے بازی کا ہنر سیکھنے کے بعد اسٹاک ایکس چینج میں بھی بہت نام اور دام کماتے ہیں! اور شاید یہی سبب ہے کہ اب اسٹاک ایکچینج بھی کچھ کچھ مویشی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا ہے!
ہم دن رات اداکاری کے مختلف نمونے دیکھتے ہیں۔ دنیا کا کون سا عمل ہے جس میں اب اداکاری بنیادی جُز کی حیثیت سے شامل اور داخل نہیں؟ اِس دنیا میں ہر طرف اداکار ہی اداکار بکھرے پڑے ہیں۔ عیدِ قرباں کے موقع پر اداکاری کا رنگ ڈھنگ ذرا بدل جاتا ہے۔ اداکاری کے فن سے شغف رکھنے والوں کو شاید اندازہ نہیں کہ قربانی کے جانور کی خریداری میں اِس فن کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ ہمارے کئی دوست عیدِ قرباں کی آمد پر عمر شریف کے ڈرامے دیکھنے پر مویشی منڈی جانے اور جانوروں کی خرید و فروخت کا منظر دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں! قربانی کے جانور کی قیمت کا تعین ایک دلچسپ ڈرامے کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ اس ڈرامے کے مرکزی کرداروں کو دیکھنے کے لئے جو تماشائی منڈی میں موجود ہوتے ہیں انہیں دیکھنا بھی تفریح سے کم نہیں!
ویسے بہت سے جہاں دیدہ ”منڈی دان“ کہتے ہیں کہ قربانی کے جانور کی خریداری کے عمل میں منڈی جس ماحول سے گزرتی ہے وہ خود جانوروں کے لئے بھی تفریح سے کم نہیں!
ہمارے معاشرے میں شادی کو لائف ٹائم ایونٹ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کچھ کچھ یہی حال قربانی کے جانور کی خریداری کا بھی ہے۔ حکومت چاہے تو اسے ایک ماہ کے باضابطہ ”کیٹل فیسٹیول“ کا درجہ دے کر لوگوں کے لئے مستقل سالانہ تفریح کا اہتمام کرسکتی ہے!٭٭٭
اگر اللہ نے توفیق دے ہی دی ہے اور دو چار جہاں دیدہ مشیروں کی مدد سے کسی نہ کسی طرح آپ نے قربانی کا جانور خرید ہی لیا ہے تو ابھی سُکون کا سانس مت لیجیے۔ آپ کی پریشانیاں ابھی کہاں ختم ہوئی ہیں؟ جانور کو گھر تک لے جانا کوئی بچوں کا کھیل ہے؟ یہ ایک باضابطہ مشن ہے، آپریشن ہے!
لیجیے صاحب، جانور کو خریدے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا ہے مگر اب تک کسی گاڑی والے سے ڈیل نہیں ہو پائی! کوئی بھی گاڑی والا صرف پانچ کلو میٹر کے فاصلے تک دو ہزار روپے سے کم میں جانے پر راضی نہیں۔ آپ سوچ رہے ہیں کہ گاڑی والا بھی انسان ہے، کوئی قربانی کا جانور تو ہے نہیں پھر کیوں اس بات پر تُلا ہوا ہے کہ اُس کی ناز برداری کی جائے؟ یاد رکھیے، اب آپ کو ہر اُس انسان اور چیز کے نخرے برداشت کرنے پڑیں گے جس کا قربانی کے جانور سے کسی بھی قسم کا تعلق ہو! قربانی کا جانور جو چارا کھا رہا ہو اُسے اور اس چارے کی ”حتمی شکل“ کو بھی احترام کی نظر سے دیکھنا پڑے گا!
آپ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ اتنا کرایا دے کر تو آپ خود بھی کبھی ٹیکسی میں نہیں بیٹھے! ہم مانتے ہیں کہ آپ جھوٹ نہیں سوچ رہے، آپ یقیناً اِتنے پیسے دیکر کبھی ٹیکسی میں نہیں بیٹھے ہوں گے، مگر شاید آپ کا حافظہ کام نہیں کر رہا۔ ذرا یاد کیجیے کہ آپ کبھی قربانی کے جانور رہے ہیں؟ نہیں نا! تو پھر آپ کی اِتنی ویلیو کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ ناز، یہ انداز صرف اُس کے لئے مختص ہے جسے اللہ کی راہ میں قربان ہونا ہے۔ قربانی کے جانور کو گھر تک لے جانے کے لئے ذرا اچھی والی گاڑی کا اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ جانور بہت حساس ہوتا ہے، ہارن کی آواز سے بدکتا ہے اور گاڑی کے جھٹکے آسانی سے برداشت یا ہضم نہیں کر پاتا۔ اگر راستے میں تکلیف زیادہ پہنچے تو حساسیت کا اظہار خاصے بدبو دار انداز سے کرتا ہے!
قربانی کے جانور کو عمدگی سے گھر تک لے جانا بھی ایک ایسا مشن ہے جس کے لئے پلاننگ کرنی پڑتی ہے۔ اِس معاملے میں مشورہ دینے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ بعض لوگ اِس سلسلے میں وہی پروٹوکول بیان کرتے ہیں جو امریکی صدر براک اوباما نے اپنے لیے بھارت کے دورے میں طے کروایا تھا!
اگر آپ قربانی کے جانور کو منڈی سے گھر تک پیدل لے جانے کا قصد کریں گے تو لوگ آپ کو عقل سے پیدل تصور کرنے لگیں گے! سوال فاصلے کا نہیں، ذہنی سطح کا ہے۔ اور ذہنی سطح بھی آپ کی نہیں، قربانی کیے جانور کی! بہت سے لوگ یہ تجربہ کرکے بہت کچھ بھگت چکے ہیں۔ قربانی کا جانور پیدل سفر میں جو تِگنی کا ناچ نچاتا ہے اُسے بیان کرنے کے لئے کاغذ، قلم اور جگرا بے حساب ہونا چاہیے! اگر آپ قربانی کے جانور کو منڈی سے گھر تک پیدل لے جائیں گے تو خود آپ کا اِتنا برا حال ہوجائے گا کہ آپ دونوں کو دیکھ کر لوگ فیصلہ نہیں کر پائیں گے کہ ……
ایک صاحب اس تجربے کا ایسا خطرناک خمیازہ بھگت چکے ہیں کہ اُسے الفاظ میں بہتر انداز سے بیان کیا ہی نہیں جاسکتا۔ جب وہ صاحب مویشی منڈی میں کامیاب ڈیل کے بعد بکرے کو لیکر پیدل گھر پہنچے تو معاملہ یہ تھا کہ ”محمود و ایاز“ ایک ہوچکے تھے اور اُن کے بیٹے نے دونوں کو گھر کے دروازے پر دیکھ کر صدا لگائی ”امی! بکرا آگیا، مگر پتا نہیں کیوں رسی ابّو کے گلے میں پڑی ہے!“٭٭٭
بعض لوگ سوچے سمجھے بغیر نئے مکان کا ڈھانچا تو کھڑا کرلیتے ہیں مگر اِسی میں بجٹ ختم ہو جاتا ہے اور کنکریٹ کے ڈھانچے میں دروازے کھڑکیاں لگانے اور فنشنگ کرانے کے پیسے نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ پورا نیا مکان تیار ہو جاتا ہے، دروازے، کھڑیاں اور گرلیں بھی لگ جاتی ہیں مگر رنگ کرانے کے پیس نہیں ہوتے۔ اب کچھ کچھ یہی حال قربانی کا بھی ہے۔ لوگ جیسے تیسے، جگاڑ کرکے پیسوں کا اہتمام کرتے ہیں اور جانور لے آتے ہیں مگر اُس کے ناز اٹھانے کا بجٹ جیب میں نہیں ہوتا۔ دو چار دن قربانی کے بکرے کے ناز اٹھانے کی کوشش میں بکرے کے مالک کا پہاڑی بکرے جیسا منہ نکل آتا ہے کیوں کہ بکرے کو چارا ڈالنے کے چکر میں وہ خود بے چارا یعنی بھوکا رہ جاتا ہے!
بیگمات کو اِس بات کی توفیق کم ہی ملتی ہے کہ دن بھر محنت مشقت کرنے والے شوہر کے لئے کچھ خاص پکالیا جائے مگر بکرے یا دُنبے کو کھلانے کے لئے کچھ خاص اہتمام کی اُنہیں زیادہ فکر لاحق رہتی ہے! بچے تو معصوم ہوتے ہیں، انہیں بھلا قربانی کے جانور کے پروٹوکول کا کیا پتہ! اشیائے خور و نوش کے نام پر جو کچھ انسان کے نصیب میں لکھا ہے اُس سے قربانی کے جانور کو بچانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے! اگر بچے غلطی سے بکرے کے سامنے پالک، سرسوں کا ساگ، چولائی کی بھاجی، مولی کے پتے یا ایسی ہی کوئی اور سبزی ڈالیں تو خواتین خانہ چیخ چیخ کر پورا گھر سر پر اٹھالیتی ہیں۔ ”یہ قربانی کا جانور ہے، اِسے کوئی بھی ایسی گھٹیا چیز مت کھلاؤ جسے انسان کھاتے ہوں!“٭٭٭
قربانی کے جانور کو منڈی سے براہ راست گھر لائے جانے پر بہت سی خواتین اِسی لئے چراغ پا ہو جاتی ہیں۔ ”بچھیا کو سیدھے گھر کیوں لے آئے؟ کونے پر سلیم صاحب رہتے ہیں نا؟ اُن کی بیٹی سلمیٰ نے میک اپ کا کورس کیا ہوا ہے۔ اُس سے فیشل کرا لاؤ۔ دیکھو تو سہی، منہ پر کتنی مٹی جمی ہوئی ہے! محلے والے دیکھیں گے تو کیا سوچیں گے؟ اور ہاں، چار گلیاں چھوڑ کر دھوبی پاڑے میں سلیمان بھائی جانور نہلانے کے ایکسپرٹ ہیں۔ اُن کے پاس لے جاؤ، وہ نہلائیں گے تو کچھ اندازہ ہوسکے گا کہ یہ ہے کِس رنگ کی؟“ اور شوہر بے چارے سوچ میں پڑ جایا کرتے ہیں کہ مٹی تو ہمارے منہ پر بھی جمی ہوئی ہے مگر اِس مٹی کو دیکھنے والی آنکھیں شاید بیگم کے پاس نہیں! پتہ نہیں وہ دن کب آئے گا جب بیگم کو ہمارے رنگ کی بھی کچھ فکر لاحق ہوگی! گندمی رنگ کا شوہر حالات کے ہاتھوں بینگنی رنگ کا ہو جائے تو بھی بیگمات کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی! اُنہیں تو قربانی کے جانور کی رنگت کا غم کھائے جاتا ہے!
بات جب فیشن کو برتنے اور حسن کو برقرار رکھنے تک پہنچ ہی گئی ہے تو معاملہ صرف بیوٹی کیئر تک کیوں محدود رہے؟ جانور کپڑوں سے کیوں محروم رہیں؟ جانوروں کو برہنہ گھمانا تہذیب اور شائستگی کی نشانی تو ہرگز نہیں! لوگ کیا کہیں گے، پچاس ہزار کا جانور خرید لیا مگر اُس کے لئے ڈیڑھ دو ہزار کے کپڑے نہ بنواسکے!
پنجابی فلموں کی ہیروئن کے زرق برق ملبوسات قربانی کے جانوروں سے دور رکھیے، کیونکہ وہ بدک اور بھڑک سکتے ہیں! اور ذرا سوچیے کہ اُنہوں نے پنجابی فلموں کی ہیروئن کی طرف جمپ مارنا شروع کردیا تو اُنہیں کون کنٹرول کر پائے گا؟ ایسی حالت میں آپ قربانی نہیں کر پائیں گے کیونکہ اِس ٹائپ کے جانوروں کو لکی ایرانی سرکس والے لے اُڑتے ہیں۔٭٭٭
لیجیے صاحب، اللہ اللہ کرکے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔
دِن گنے جاتے تھے جس دِن کے لیے
زندگی میں آج وہ دن بھی آ ہی گیا۔ قربانی کا بکرا یعنی واقعی اور اصلی بکرا آپ کی ہم رکابی کرتا ہوا، مستانی چال چلتا ہوا گھر آچکا ہے اور اب اُس کی رُونمائی کا مَحَل ہے یعنی ”مُنہ دِکھائی“ کی رسم ادا کی جارہی ہے!
مُحلّے بھر کے بچے بکرے کے گرد جمع ہیں اور اُسے اِس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے آسمان سے پہلی بار بکرا اُتارا گیا ہے! نئی دُلھن کو بھی بچے اِسی طرح ٹریٹ کرتے ہیں! سِگمنڈ فرائڈ سمیت کوئی بھی ماہر نفسیات آج تک یہ بھید بیان نہیں کرسکا کہ بچے قربانی کے جانور اور نئی دُلھن کو اِس قدر حیرت، مسرت اور تجسس سے کیوں دیکھتے ہیں!
بکرا جب بچوں سے فراغت پائے گا تب مُحلّے بھر کی عورتیں جمع ہوں گی اور باضابطہ رسم کے سے انداز سے بنی اسرائیل کی ایک روایت کو زندہ کریں گی یعنی قربانی کے بکرے میں“خامیوں“ کی نشاندہی کریں گی!
اپنے آپ پر ناز کرنے والا بکرا اگر اِن خواتین کی باتیں سمجھ پائے تو اپنے عیوب پر مطلع ہو اور شرم سے پانی پانی ہو جائے! ”پانی پانی“ ہونا تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
قربانی کے جانور کی تصاویر موبائل فون کی مدد سے خاندان بھر میں بھیجی جاتی ہیں تاکہ تمام رشتہ داروں کو اندازہ ہو کہ اِس بار کون کیسے جانور کے ہاتھ لگا ہے! اِس صورت میں سب کو ایک دوسرے کی ”قربانیاتی“ حیثیت کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے!
خدا سچ ہی بُلوائے، قربانی کے جانور کی قسمت پر رشک آتا ہے۔ ایسی آؤ بھگت تو آج کل دولھے راجا کی بھی نہیں ہوتی! سُنا ہے قربانی کے جانوروں کی مثالی عزت افزائی کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے لڑکے والے رشتہ طے ہوجانے پر لڑکی والوں کے سامنے یہ شرط بھی رکھتے ہیں کہ جب ہم بارات لے کر آئیں تو دولھا کو وہی عزت دینا جو قربانی کے جانور کو دی جاتی ہے!٭٭٭
اگر آپ نے یہ سوچ لیا ہے کہ قربانی کا جانور خرید کر گھر لے آنا بہت بڑا کارنامہ ہے تو یقین کیجیے کہ آپ کی سوچ سراسر غلط فہمی یا خوش فہمی پر مبنی ہے۔ ابھی ایک بڑا اور خاصا جاں گسل مرحلہ باقی ہے۔
بات قربانی کی ہو اور معاملات چُھری، بُغدے اور مِڈّھی تک نہ پہنچیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ گھر میں قربانی کا جانور بندھا ہو تو ہر قصاب سے پورے خلوص اور مٹھاس کے ساتھ بات کرنی پڑتی ہے! اگر عیدالاضحیٰ سے تین چار دن قبل کسی قصاب سے آپ کی ڈیل نہیں ہو پائی تو قربانی کا جانور اُس بیٹی جیسا دکھائی دینے لگے گا جس کی عمر تیزی سے ڈھل رہی ہو!
قربانی کا جانور آپ کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے پُل صراط سے گزرے گا مگر قصاب سے معاملات طے کرتے وقت ہر پَل آپ کو یہ احساس ہوگا کہ شاید اِس ڈیلنگ ہی کو پُل صراط سے گزرنا کہتے ہیں!
قصاب سے معاملات طے کرتے وقت غیر معمولی ذہانت اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ ہر قصاب قربانی کے جانور کے ساتھ ساتھ اُس کے مالک کو بھی پچھاڑنے کے لئے بے تاب رہتا ہے! اگر آپ معاملات طے کرنے میں مات کھاگئے تو وہ دو چھُریاں پھیرے گا ۔۔۔۔ لوہے کی چھُری جانور کی گردن پر اور چارجز کی چھُری آپ کے مُقدّس حلقوم پر! جانور کی کھال وہ کم اور آپ کی زیادہ اتارے گا!٭٭٭
آپ نے تو واقعی کمال کر دکھایا، یعنی اِس مہنگائی کے دور میں قربانی (کرنے اور قربان ہونے) کا شرف پالیا! یعنی قربانی کا جانور ذبح کیا جاچکا ہے۔
جانور کو ذبح کرنے کا مرحلہ بھی کچھ کم دشوار نہ تھا۔ بہت سے گھرانوں میں شادی کے موقع پر بُزرگوں کے درمیان اِس بات پر تنازع جنم لیتا ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ دیگ پر کون بیٹھے گا! بیک وقت کئی بزرگ دیگ سے کھانا نکالنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر ”پہلی دام میری، اللّہ سے بڑا کوئی نہیں!“ کی تکرار سُنائی دیتی ہے! قربانی کا جانور ذبح کرنے کے موقع پر معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ آپ اپنے خاندان یا مُحلّے کے کسی بھی بُزرگ کو بدکتے، بھڑکتے جانور کے قریب پَھٹکتا ہوا نہیں پائیں گے!
اِس موقع پر صاحب خانہ خود کو ہاتھ پاؤں بندھی لاش جیسا محسوس کرتے ہیں اور جانور کے پاؤں باندھنے اور گردن دبوچنے کے لیے نوجوانوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں! اِس ٹائپ کے نوجوان بس تھوڑی سی دوڑ دھوپ سے مل جاتے ہیں۔ اور کیوں نہ ملیں، ”بعض“ آنکھوں کو اپنا زور بازو دکھانے کے لئے وہ اِس دن کا سال بھر انتظار کرتے ہیں!
لیجیے صاحب، قربانی کے جانور کی کھال اُتاری جاچکی ہے۔ آپ کا ذہن اب تقسیم ہوتا جارہا ہے کیونکہ گوشت کی تقسیم کا مرحلہ نزدیک آرہا ہے! اگر آپ اِس مرحلے سے صحیح ڈھنگ سے نہ گزرے تو کئی داستانیں جنم لیں گی جو ”منہ بہ منہ“اور ”کان نہ کان“ سفر کرتی رہیں گی اور آپ suffer کرتے رہیں گے!
سوال صرف یہ نہیں کہ کِسے کِتنا اور کیسا گوشت دیا جائے گا بلکہ یہ بات بھی اہم ہے کہ کِس کِس کو پہلے گوشت بھیجا جائے گا!
آپ کے گھر میں (بھی) حکم کِس کا چلتا ہے؟
وزیر داخلہ کا یعنی بیگم کا، اور کِس کا! جب آپ دوسرے بہت سے معاملات میں بیگم کی مرضی پر بخوشی کاربند رہتے ہیں تو پھر بَھلا قربانی کے متبرک موقع پر کِسی بھی قسم کی حُجّت بازی کیوں پسند کریں گے؟ پس طے پایا کہ سب سے پہلے بیگم صاحبہ کے میکے میں گوشت جائے گا! اور وہ بھی اچھا والا، ورنہ بیگم کی یہ بات بُغدے کی طرح آپ کے جذبات اور اعصاب کے دو ٹکڑے کردے گی کہ ”تمھارے گھر والے تو اُڑائیں چانپ کے مزے اور میرے گھر والوں کے لئے کیا کلّے اور پردے کا گوشت رہ گیا ہے!“
قربانی کے گوشت کو پیٹ تک پہنچانے کی تمام تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں۔ سب کمر کَس کر بیٹھ گئے ہیں۔ بوٹیوں کو پیٹ میں دھکیلنے کے لئے ”ٹھنڈی والی کولڈ ڈرنکس“ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے! احتیاطی تدبیر کے طور پر ہاضمے کے چورن کا فیملی پیک بھی خریدا گیا ہے! ویسے بدہضمی قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ لوگ تو بدہضمی کو بھی ڈکارنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں!
قربانی کا گوشت تازہ اور لذیذ ہوتا ہے۔ یاد رکھیے کہ گوشت جانور کا ہے مگر پیٹ تو اپنا ہے! نَفس پر قابو پائیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ نَفس کا کیا دَھرا معدے کو برداشت کرنا پڑے! دستر خوان پر نَفسا نَفسی سے گریز کیجیے۔ اگر آپ نے قربانی کی ہے تو ویسے ہی ادھ مُوئے ہوچکے ہوں گے! ایسے میں زیادہ گوشت کھاکر اپنا مزید تیا پانچا کرنے سے گریز کیجیے!٭٭٭