امریکا میں ایک جج نے مسوری سے تعلق رکھنے والی خاتون کو سنائی جانے والی سزائے قید پلٹ دی ہے۔ فیصلہ 43 سال بعد پلٹا گیا ہے۔ ثابت ہوگیا ہے کہ قتل خاتون نے نہیں بلکہ پولیس افسر نے کیا تھا۔
جج ریان ہارسمین نے کہا کہ سینڈرا ہیم کے وکیل نے جیوری کو اس کے بے قصور ہونے کے حوالے سے قائل کرنے میں نا اہلی دکھائی اور استغاثہ کوئی ایسی بات سامنے لانے میں ناکام رہا جو اُس کی بے گناہی ثابت کرسکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1980 کے قتل کیس میں سینڈرا ہیم نے خود کو غلطی سے ملوث کرلیا تھا کیونکہ وہ ذہنی مریضہ تھی اور معاملات کو سمجھ نہیں پاتی تھی۔ اُسے نیو یارک کے ایک کتب خانے کی ملازمہ 31 سالہ پیٹریشیا جیشکے کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جب اس سے پہلی بار تفتیش کی گئی تھی تو اسے باندھ کر رکھا گیا تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ ذہنی مریضہ ہے اور مکمل حواس میں نہیں۔ یہ بات نیو یارک کے ادارے ”انوسینس پراجیکٹ“ نے بتائی جس نے اُس کا مقدمہ دوبارہ لڑا اور اُسے بے قصور ثابت کیا۔
سینڈرا ہیم کے بیانات میں غیر معمولی تضادات تھے مگر یہ سب کچھ نظر انداز کرکے اُسے مجرم ٹھہراکر جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ استغاثہ نے اس وقت کے پولیس افسر مائیکل ہالمین کے خلاف شواہد پیش کرنے سے گریز کرکے سینڈرا کے خلاف کیس مضبوط کردیا تھا۔