ایک طرف امریکا کی جانب سے سراج الدین حقانی المعروف ”خلیفہ صاحب“ کو عالمی دہشتگرد قرار دے کر ان کے بارے میں معلومات پر 10 ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا گیا ہے، دوسری جانب انہیں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں وہاں کی ملکی قیادت کے ساتھ دیکھا گیا، جس کی ویڈیوز بھی میڈیا پر سامنے آئیں۔
سراج الدین حقانی افغان طالبان کے اہم رہنما ہیں، جو امریکہ کو برسوں سے مطلوب ہیں، لیکن فی الحال وہ افغانستان کی طالبان حکومت میں وزیر داخلہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
سراج الدین حقانی طالبان کے سب سے مضبوط دھڑے ”حقانی مجاہدین“ یا ”حقانی نیٹ ورک“ کے بانی مولوی جلال الدین حقانی کے صاحبزادے اور جانشین ہیں۔
امریکہ میں ہونے والے نائن الیون کے حملوں کے کچھ عرصہ بعد بیماری اور ضعیف العمری کی سبب جلال الدین نے سراج الدین کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور یوں اس وقت سے وہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں۔
اپنے والد کے جانشین ہونے کی وجہ سے انہیں ’خلیفہ صاحب‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
سراج الدین حقانی حال ہی میں خود پر لگی پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد ابوظہبی پہنچے اور متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی، سعودی عرب میں حج کے دوران بھی ان کی ویڈیوز منظرِ عام پر آئیں۔
2021 میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد عوامی سطح پر یہ ان کا پہلا بیرون ملک دورہ ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شکست پر امریکی ترجمان کا دلچسپ جواب
ابوظہبی کے بیچ پیلس میں انہوں نے شیخ محمد بن زید النہیان سے اپنے وفد کے ہمراہ ملاقات کی، اس وفد میں جنرل انٹیلی جنس کے سربراہ عبدالحق وثیق بھی شامل تھے۔
بی بی سی عربی کو دیے گئے ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ کے علاقائی ترجمان سیم وار برگ نے کہا کہ واشنگٹن طالبان کے ساتھ خطے کے ممالک کے تعلقات کے بارے میں پوری طرح سے آگاہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات افغان عوام کی حمایت میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور یو اے ای کی جانب سے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی حمایت بھی کی جاتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ یو اے ای ملک چھوڑنے والوں افغان شہریوں کا میزبان بھی ہے۔
وار برگ نے اس بات پر زور دیا کہ افغان طالبان سے نمٹنے کے لیے امریکی انتظامیہ اپنے تمام تر شراکت داروں کے ساتھ باضابطہ طور پر رابطے میں ہے۔
توہین رسالت ﷺ پر گرفتار کامیڈین کو عدالت نے سزا سنا دی
ان کا کہنا تھا کہ سراج الدین حقانی اب بھی امریکہ کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ امریکہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس بات کی اُمید کرتا ہے کہ اُس کے شراکت دار بھی یقینی بنائیں گے کہ فریقین بین الاقوامی معیار اور قوانین پر عمل کریں۔
بی بی سی کے مطابق امارات سے تعلق رکھنے والے اسٹریٹجک تجزیہ کار امجد طحہٰ کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے معاملات سیاسی حقیقت پسندی اور درست سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارت کی جانب سے جاری مذاکرات کی ہی بدولت آج سب سلامتی، استحکام، ترقی، اور بنیادی انسانی حقوق کے احترام کی بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے بی بی سی عربی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’متحدہ عرب امارات طالبان کی حکومت کے ساتھ حقیقت پسندانہ سلوک کر رہا ہے، جیسا کہ امریکہ اور دیگر حکومتیں تہران، شام یا مغربی کنارے میں لوگوں کے بہتر مستقبل کی خاطر کرتی ہیں۔ افغانستان کی ایک اہم جغرافیائی سیاسی حیثیت ہے کیونکہ یہ مشرقی، مغربی اور جنوبی و وسطی ایشیا کو جوڑنے والا ایک اہم مُلک ہے‘۔
ان کا خیال ہے کہ کامیابی کے عناصر میں سے ایک افغان عوام اور افغان معاشرے کے تمام متضاد فریقوں کے درمیان قومی مفاہمت ہے۔
افغان سنٹر فار میڈیا اینڈ سٹڈیز کے سربراہ عبدالجبار بحر کا کہنا ہے کہ حقانی کے متحدہ عرب امارات کے دورے کے مقاصد واضح ہیں، جن میں شاید سب سے نمایاں یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت خطے کے ممالک کے ساتھ رابطہ اور بات چیت چاہتی ہے۔ اس کے باوجود کہ بین الاقوامی دُنیا خاص طور پر امریکہ کا افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے پر دباؤ برقرار ہے۔
اسرائیلی فوجی نے مسجد کو ریستوران بنا دیا
سیاسیات اور میڈیا کے پروفیسر اور قطر میں بین الاقوامی امور کے محقق ڈاکٹر علی الحیل نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ’متحدہ عرب امارات عرب دنیا کے ان بڑے ممالک میں سے ایک ہے جن کے علاقائی سلامتی کے حوالے سے تحفظات ہیں اور حقانی کو یہاں بلا کر وہ ان امور میں اُن کی مدد چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات افغانستان کو خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے یا علاقائی سیاسی توازن حاصل کرنے کے لیے ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔
افغان سینٹر فار میڈیا اینڈ اسٹڈیز کے سربراہ عبدالجبار باہیر کا ماننا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) پر اثرو رسوخ ڈال سکتے ہیں، خاص طور پر جب تنظیم کے وفود کسی واضح فریم ورک کی وضاحت کے بغیر مذاکرات کا طریقہ کار ڈھونڈنے کے لیے پہلے ہی افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں۔