سعودی عرب نے خام تیل کی فروخت کو صرف ڈالر تک محدود نہ رکھنے کے لیے امریکا سے 80 سالہ معاہدہ ختم کردیا۔ اس معاہدے پر 8 جون 1974 کو دستخط کیے گئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت سعودی عرب تیل کے سودے صرف ڈالر میں کرسکتا تھا۔
اب سعودی حکومت چینی یوآن، جاپانی، ین، یورو اور دیگر کرنسیوں میں بھی خام تیل کی فروخت کے معاہدے کرسکے گی۔
اتوار 9 جون کو ختم ہونے والے معاہدے کی تجدید کرنے میں سعودی عرب کی حکومت نے دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ یہ معاہدہ عالمی معیشت پر امریکا کے واضح اثر و رسوخ کا ایک کلیدی اشاریہ تھا۔
اس معاہدے کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان معاشی امور میں اشتراکِ عمل کے لیے مشترکہ کمیشن قائم ہوئے اور سعودی عرب کی عسکری ضرورتیں پوری ہوئیں۔
1974 میں معاہدے کے تحت امریکی حکام کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں سعودی عرب کو تیل کی پیداوار بڑھانے میں مدد ملے گی اور عرب ممالک سے امریکا کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔
سعودی عرب اب متعدد بڑی کرنسیوں میں تیل کے سَودے کرسکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ بِٹ کوائن جیسی ڈجیٹل کرنسیوں میں بھی تیل بیچنے کو ترجیح دے گا۔
یاد رہے کہ امریکا نے 1972 میں اپنی کرنسی یعنی ڈالر کو سونے کے معیار سے الگ کردیا تھا۔ اس تناظر میں سعودی عرب سے تیل کے سَودے صرف ڈالر میں کرنے کا معاہدہ بہت اہم تھا۔
سعودی عرب کے اس فیصلے سے دنیا بھر میں بین الاقوامی سودوں کے لیے یورو، برطانوی پاؤنڈ، یوآن، ین اور دیگر مضبوط کرنسیوں کا استعمال بڑھے گا۔
ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب نے مرکزی بینکوں اور کمرشل بینکوں میں شیئر کیے جانے والے ڈجیٹل کرنسی پلیٹ فارم پراجیکٹ ایم برج سے بھی وابستگی اختیار کرلی ہے۔ یہ پلیٹ فارم لیجر ٹیکنالوجی کے ذریعے بین الاقوامی سودوں میں ادائیگی کی رفتار بڑھانے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
پراجیکٹ ایم برج 2021 میں شروع ہوا تھا۔ کئی بڑے مرکزی بینک اور عالمی ادارے اس سے وابستہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل کے سودوں کو ڈالر سے الگ کرنے کا سعودی عرب کا اقدام عالمی معیشت میں بہت کچھ تبدیل کرنے کا ذریعہ بنے گا۔