وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں بریت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
تین جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بری کردیا تھا۔
جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں سزا کی خلاف اپیلوں پر فیصلہ سنایا اور سائفر کیس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی کی بریت کی اپیلیں منظور کیں۔
عمران خان، شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید آزادی مارچ مقدمے سے بری
جس کے بعد وفاقی حکومت نے دونوں کی بریت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا اور وزارت داخلہ کے زریعے درخواست دائر کردی۔
حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل میں میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کو سائفر کیس میں اپیل سننے کا اختیار ہی نہیں، یہ اصول طے شدہ ہے کہ جب پارلیمنٹ قانون میں کوئی بات نہ لکھے تو عدالتی فیصلے کے ذریعے اس میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست میں کہا گیا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا سائفر ٹرائل کے دوران عدم تعاون کا رویہ رہا، ریکارڈ سے ثابت ہے کہ دونوں ملزمان نے ٹرائل کے دوران 65 متفرق درخواستیں دائر کیں، متعدد بار ملزمان کی استدعا پر سماعتیں ملتوی ہوتی رہیں، سائفر کیس میں گواہان پیش ہوئے لیکن ملزمان کے وکلا نے ان پر جرح نہیں کی، ملزمان کے وکلا کو سرکاری خرچ پر وکیل مہیا کیا گیا۔
عمران خان کی رہائی کیلئے پی ٹی آئی کا ملک گیر احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ
درخواست کے مطابق یہ اصول طے شدہ ہے کہ کسی ٹرائل میں قانونی تقاضے پورے نا ہوں تو معاملہ دوبارہ ٹرائل کے لیے بھیجا جاتا ہے، سائفر کیس میں استغاثہ نے ٹھوس شواہد پیش کیے، استغاثہ نے سائفر کیس میں دستاویزی اور فارنزک ثبوت پیش کیے جنہیں ٹرائل کے دوران جھٹلایا نہیں گیا، اسلام ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں پیش کیے گئے ٹھوس شواہد کو مدنظر نہیں رکھا۔
حکومتی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3 جون کے سائفر کیس میں بریت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی جائیں۔