انسداد دہشت گری عدالت سرگودھا کے جج کو ہراساں کرنے کے معاملے پر لاہور ہائیکورٹ نے از خود نوٹس پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالت نے سرگودھا اے ٹی سی میں وکلاء اور سائلین کو پیش ہونے سے روکنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے انسداد دہشت گری عدالت سرگودھا کے جج کی جانب سے لکھے گئے خط پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
اے ٹی سی جج نے خط میں لکھا کہ مجھے پیغام پہنچایا گیا کہ حساس ادارے کے کچھ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں، میرے انکار پر میرے گھر کا گیس میٹر توڑ دیا گیا اور بجلی کا بھاری بھر کم بل بھیجا گیا، یہ بل واپڈا اہلکاروں کی ملی بھگت سے بھیجا گیا ہے، پولیس نے 9 مئی کے کیسز کی سماعت کے دن عدالت کی جانب جانے والے رستے بند کر دیے اور عدالت کے باہر لگے ٹرانسفارمر پر فائرنگ بھی کی گئی۔
دوران سماعت آئی جی پنجاب، ڈی پی آر سرگودھا عدالت میں پیچ ہوئے اور حساس نوعیت کی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی۔
آئی کی پنجاب کا کہنا تھا کہ عدالت کے باہر فائرنگ کی انکوائری کروائی، ہمیں اس حوالے سے عدالت کے علاقے کی جیو فینسنگ کروانی ہے مگر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹیلی فون کمپنیوں کو کال ڈیٹا فراہم کرنے سے منع کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے جوڈیشل افسر نے کہا کہ حساس ادارے کے بندے نے انہیں ملنے کا پیغام پہنچایا، کیا آپ نے وہ بندہ ڈھونڈا ہے؟ جس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ میں نے متعلقہ افسروں سے اس حوالے سے پوچھا مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سوال کیا کہ آپ نے کس قانون کے تحت وکلا اور سائلین کو اے ٹی سی عدالت جانے سے روکا ؟ جس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ اس حوالے سے تھریٹ الرٹ تھا، اس لیے عدالت کو بند کیا گیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ تو پھر ساری عدالتیں بند کر دیتے ہیں، آپ کرفیو نافذ کر دیں, ہم لوگوں کے اکٹھے ہونے کی بات نہیں کر رہے، عدالت میں جانے سے کیوں روکا؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بہاولپور میں جج صاحب کے گھر کے باہر لگا میٹر توڑا گیا، اس کی کیا معلومات ہیں؟ جس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ہمیں ایسی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ڈی پی او سرگودھا کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ چاہتے تھے کہ جج صاحب کے پاس جو کیس لگے ہیں ان پر کارروائی نہ ہو سکے، آپ نے وکلاء اور سائلین کو عدالت میں گھسنے نہیں دیا، اور کام سے روکنا کیا ہوتا ہے؟ آپ نے راولپنڈی کے جج کے ساتھ بھی یہی کیا۔ راولپنڈی کے جج نے درخواستیں دیں کہ آپ لوگ ان کے ساتھ سلوک کیا کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے مزید ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب، برائے کرم عدالت کا مذاق نہ بنائیں۔ کور کمانڈر کے گھر حملہ ہوا، اس پر عدالتوں نے فیصلے کرنے ہیں، صوبے کی سب سے بڑی عدالت پر وکلا کا حملہ ہو تو آپ نے کسی کو مقدمے میں نامزد نہیں کیا، اس ملک میں دوہرا معیار ہے۔ جو جج پسند نہ ہو اس کے خلاف بیان بازی اور سوشل میڈیا پر پروگرام چلوائے جاتے ہیں۔
دلائل مکمل ہونے پر انسداد دہشت گری عدالت سرگودھا کے جج کو ہراساں کرنے کے معاملے پر عدالت نے از خود نوٹس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔