وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے بجٹ دستاویز 25-2024 پر دستخط کئے جانے کے بعد وزیرِ خزانہ پنجاب مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے آج آئندہ مالی سال کا تقریباً 5446 ارب روپے حجم کا بجٹ پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا، اس دوران اپوزیشن کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی کی گئی اور بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑا دی گئیں، پیپلز پارٹی نے بھی بجٹ اجلاس میں علامتی شرکت کی۔
پیپلز پارٹی پنجاب بجٹ اجلاس میں علامتی طور پر شریک ہوئی اور پارلیمانی پارٹی کے صرف دور ارکان شازیہ عابد اور قاضی احمد سعید نے بجٹ اجلاس میں پارٹی کی نمائندگی کی۔
پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ کاشتکاروں کے مسائل پر ن لیگ نے ہماری کسی تجویز پر عمل نہیں کیا، سالانہ ترقیاتی پروگرام میں بھی پیپلز پارٹی کو نظر انداز کیا گیا، سالانہ ترقیاتی پروگرام میں جنوبی پنجاب کا 34 فیصد حصہ نہ دینے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ کو دوبارہ فعال کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی ترقی کا آغاز ہوچکا ہے، مریم نواز نے مختصر عرصے میں انقلابی اقدامات کیے ہیں، مریم نواز نے صوبے میں مہنگائی کو ریکارڈ حد تک کم کیا۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ پنجاب میں صحت کے شعبے میں انقلابی اقدامات ہورہے ہیں، مریم نواز اب پنجاب کی طاقت بن گئی ہیں، شہباز اسپیڈ اب ڈیجیٹل پنجاب اسپیڈ بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ایک بھر پھر کاروبار دوست ماحول پیدا ہوگا۔
وزیر خزانہ کے مطابق وزیراعلیٰ نے مہنگائی کے مسئلے پر خصوصی توجہ دی ہے، مہنگائی کی شرح 11.8 پر لائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہر طبقے کو ریلیف فراہم کر رہے ہیں، پنجاب بھر میں سڑکوں کی بحالی کا آغاز کیا جارہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب کا پہلا باضابطہ ٹیکس فری بجٹ پیش کیا جارہا ہے، 10 ارب لاگت سے غریب طبقے کو گھر فراہم کررہے ہیں، 5 لاکھ کسانوں کو 75 ارب مالیت کے بلاسود قرضے دیے جائیں گے، 5 مرلے تک گھر بنانے والوں کو قرض دیں گے، 100 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو مفت سولر دیں گے، 10 ارب وپے کی لاگت سے اپنی چھت اپنا گھر پروگرام لائیں گے۔
وزیرِ خزانہ کے مطابق یہ پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ ہے، چیف منسٹر گرین ٹریکٹر پروگرام شروع کیا جارہا ہے، جس کے تحت کسان آسان اقساط پر اپنے ٹریکٹر کے مالک بن سکیں گے، پنجاب میں 7 ہزار ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کیا جائے گا، کسانوں کو ڈیری فارمنگ کے لیے آسان اقساط پر قرض دیں گے۔
وزیرِ خزانہ نے منارٹی ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کرنے کا اعلان بھی کیا، اور کہا کہ موبائل فیلڈ اسپتالوں کا آغاز کردیا گیا ہے، ایک ارب 25 کروڑ کی لاگت سے ماڈل ایگریکلچر مالز قائم کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ماحول دوست بس سروس کا آغاز کریں گے، ماحولیاتی تبدیلی، اسموگ پلانٹ فار پاکستان کے لیے بڑا بجٹ مختص کیا گیا ہے، اسموگ کی روک تھام کے اقدامات کے لیے 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سی ایم پنجاب گرین کریڈٹ پروگرام کے لیے 50 کروڑ، پنجاب میں ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم کے لیے 2 ارب 30 کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کئی مقامات پر فری وائی فائی سہولت دی جائیں گی، 10 ارب روپے سے سی ایم پنجاب لیپ ٹاپ اسکیم دوبارہ شروع کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوامی ریلیف اور کاروبار کی ترقی کا سفر مزید تیز کریں گے۔
وزیر خزانہ نے بجٹ میں صوبائی محصولات میں اضافہ کر رہے ہیں، ہم تاریخ کا سب سے بڑا کسان دوست پیکج متعارف کرا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں نواز شریف آئی ٹی منصوبے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، نوجوانوں کے ہاتھ میں پیٹرول بم نہیں لیپ ٹاپ اچھا لگتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 296 ارب لاگت سے 2 ہزار 380 کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر ہوگی۔
وزیر خزانہ کے مطابق 530 ارب روپے کی ڈیڈ اسکیمیں بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، 2 ارب کی لاگت سے معذور افراد کے لیے پروگرام شروع کریں گے، 45 کروڑ روپے کی لاگت سے ایئر ایمبولینس سروس کا آغاز کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کلینکس آن ویلز پر صحت کی سہولیات دی جارہی ہیں، پنجاب میں دانش اسکولوں کےلیے 2 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، ہائر ایجوکیشن کے لیے 17 ارب روپے کی ترقیاتی بجٹ کی تجویز ہے، بجٹ میں اسپیشل ایجوکیشن کے لیے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، محکمہ لٹریسی کے لیے 4 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔
وزیرخزانہ کے مطابق صحت کے شعبے کے لیے 539 ارب 15 کروڑ روپے مختص ہیں، 410 ارب روپے غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں رکھے گئے ہیں، بی ایچ یوز اور آر ایچ سیز کی بہتری کے لیے فیز ون میں 16 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کے لیے 69 ارب 37 کروڑ روپے مختص کیے ہیں، سیلاب سے متاثرہ اسکولوں پر تیزی سے کام جاری ہیں، پسماندہ علاقوں میں تعلیم کی فراہمی کا عمل رواں دواں ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ ہوگا، پنجاب میں کم از کم اجرت 37 ہزار روپے کردی گئی ہے، پنجاب کے بجٹ میں پنشن کی مد میں 15 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ بجٹ کا کُل حجم 5 ہزار 446 ارب کے لگ بھگ ہے، پنجاب کو 3700 ارب وفاق سے این ایف سی کے تحت ملنے کا امکان ہے جبکہ پنجاب کے بجٹ میں ذرائع آمدن کی مد میں محصولات کا ہدف ایک ہزار 26 ارب روپے ہو گا۔
ذرائع کے مطابق بجٹ میں تنخواہوں کی مد میں 595 ارب اور پنشن کی مد میں 445 ارب روپے رکھے جائیں گے، سروس ڈلیوری اخراجات کا تخمینہ 840 ارب روپے لگایا گیا ہے، ترقیاتی بجٹ کا حجم 700 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جبکہ رمضان پیکیج کے لیے 30 ارب، سی بی ڈی کو 8 ارب دیے جائیں گے۔
پنجاب بجٹ کی تیاری آخری مراحل میں، حجم 53 کھرب 70 ارب کا ہونے کا امکان
ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال 1863 سکیموں کو مکمل کیا جائے گا، 1617 جاری جبکہ 246 نئی سکیمیں مکمل کرنے کی تجویز ہے جبکہ سب سے زیادہ بجٹ روڈ سیکٹر سکیموں کیلئے 1 کھرب 21 ارب 74 کروڑ 60 لاکھ مختص کیا گیا ہے۔
صوبے کے بجٹ میں سپیشل ایجوکیشن کے لیے 2 ارب، رسمی و غیر رسمی تعلیم کے لیے 3 ارب 50 کروڑ مختص کیے گئے ہیں، اسپورٹس اینڈ یوتھ افیئر کے لیے چار ارب 87 کروڑ 50 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر 76 ارب 61 کروڑ 50 لاکھ، پرائمری ہیلتھ کیئر کے لیے 33 ارب 89 کروڑ 70 لاکھ مختص کیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پاپولیشن ویلفیئر کے لیے3 ارب اور واٹر سپلائی اینڈ سینی ٹیشن کے لیے 8 ارب 9 کروڑ 90 لاکھ مختص کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ سوشل ویلفیئر کے لیے ایک ارب 5 کروڑ 79 لاکھ ، ویمن ڈیویلپمنٹ کے لیے 92 کروڑ 60 لاکھ رکھے گئے ہیں، لوکل گورنمنٹ کے لیے 14 ارب چارکروڑ 80 لاکھ مختص کیے گئے ہیں، بجٹ کی حتمی منظوری اسمبلی اجلاس سے پہلے کابینہ دے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 2025-24 کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا، جس میں اخراجات کا تخمینہ 18 ہزار 877 ارب روپے لگایا گیا ہے، ترقیاتی بجٹ کے لیے 1400 ارب روپے رکھے جائیں گے۔
پنجاب حکومت کا 12جون کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ
وفاقی بجٹ میں جاری اخراجات کی مد میں 17 ہزار 203ارب روپے رکھے گئے ہیں، قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 9 ہزار 775 ارب، دفاع کے لیے 2 ہزار 122 ارب، پنشن کے لیے 1 ہزار 14 ارب روپے اور سبسیڈیز کے لیے 1 ہزار 363 ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ میں آمدنی کا تخمینہ 12 ہزار 970 ارب روپے لگایا گیا، انکم ٹیکس کی مد میں 5 ہزار 454 ارب روپے، کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 1 ہزار 591 ارب روپے سیلز ٹیکس کی مد میں 4 ہزار 919 ارب روپے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 948 ارب روپے آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔