وفاقی حکومت نے 18877 ارب روپے کا مالی سال 2024-25 کا بجٹ پیش کردیا ہے جس میں بجٹ خسارہ 8500 ارب روپے ہے جو وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق جی ڈی پی کا 6.9 فیصد ہوگا۔
خسارے کے باوجود حکومت نے 1400 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے رکھے ہیں۔ تاہم اخراجات میں سب سے بڑا حصہ قرضوں پر انٹرسٹ (سود) کی ادائیگی کا ہے جس کی مد میں 9775 ارب روپے ادا کیے جائیں گے۔ یہ رقم دفاعی اخراجات سے تقریبا چار گنا زیادہ ہے۔ دفاع کیلئے 2122 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت ایف بی آر کے ذریعے 12970 ارب روپے جمع کرے گی لیکن اس میں سے 7438 ارب روپے صوبوں کو دیئے جائیں گے۔ نان ٹیکس محصولات وغیرہ کو ملا کر وفاقی حکومت کی آمدن 9119 ارب روپے ہوگی۔ لہذا خسارہ پورا کرنے کیلئے قرضوں، نجکاری اور بیرون ملک سے ملنے والی امداد پر انحصار کیا جائے گا۔
بجٹ میں حکومت نے کم سے کم تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار مقرر کی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ کے سبب موبائل فونز، لگژری گاڑیاں، سیمنٹ، جائیدادیں، تانبے سے بنی اشیا، کاغذ اور کی دیگر چیزیں مہنگی ہوگئی ہیں۔
وفاقی بجٹ پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں شدید نعرے بازی کی گئی، پھر تلاوت قرآن پاک، نعت رسول مقبول ﷺ اور قومی ترانے سے اجلاس کا آغاز ہوا۔
اجلاس شروع ہوتے ہی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ پیش کرنا شروع کیا تو اپوزیشن کی جانب سے ایک بار پھر شور شرابہ کیا گیا۔
اپوزیشن نے وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران بجٹ کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
اپوزیشن اراکین اسپیکر ڈائس کے سامنے کھڑے ہوگئے اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کا پورٹریٹ ڈائس کے سامنے رکھ دیا۔
جس کے بعد اسپیکر نے سیکیورٹی سٹاف کو ایوان میں بلا لیا۔
اپوزیشن اراکین کے احتجاج پر ن لیگ کے اراکین بھی سامنے آئے اور طارق فضل چوہدری، حنیف عباسی اورعطاء تارڑ نے وزیراعظم کے گرد حصار بنالیا۔
وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے، فروری 2024 کے انتخاب کے بعد مخلوط حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے اور میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصاً محمد نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کی رہنمائی کے لیے دل کی اتاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اور معاشی چیلنجز کے باوجود پچھلے ایک سال کے دوران اقتصادی محاذ پر ہماری پیشرفت متاثر کن رہی ہے، ہم سب نے معاشی استحکام اور عوام کی بہتری کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے مل بیٹھنے کی بازگشت کئی بار سنی ہے، آج قدرت نے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے، ہم اس موقع کو زائل کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور نئے پروگرام سے متعلق بہت غیریقینی کیفیت تھی، نئے پروگرام میں تاخیر کافی مشکلات پیدا کر سکتی تھیں لیکن شہباز شریف کی سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا، اس پروگرام کے تحت لیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں معاشی اصلاحات کی راہ ہموار ہوئی اور غیریقینی کی صورتحال اختتام کو پہنچی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ خسارہ کم کرنا ایک اہم مقصد ہوگا، ہمیں انرجی سیکٹر کو بہتر کرنے کے لئے اقدمات کرنا ہیں، ایس او ایز کی تنظیم نو کرنا ہے، نجی شعبے کو فروغ دینا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال قبل افراط زر 38 فیصد تھا، غذائی افراط زر 48 فیصد تک پہنچ گیا تھا، مئی میں افراط زر 11.8 فیصد پر آگیا، حکومت نے مہنگائی میں کمی کے لئے انتھک محنت کی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات بہت ضروری ہیں، ایف بی آر میں ڈیجٹیلائزیشن پر توجہ مرکوز ہے، حکومت نے تاجر دوست اسکیم متعارف کروائی، جس کے تحت 3400 تاجروں کی رجسٹریشن ہوچکی ہے، حکومتی اخراجات میں کمی مالی خسارہ کم کرنے کا ستون ہے، وفاقی حکومت کی تمام خالی اسامیاں ختم کرنے کی تجویز ہے، اس اقدام سے 45 ارب روپے سالانہ بچت کاامکان ہے۔
وزیر خزانہ کے مطابق کاروباری سرگرمیوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے، ای پریکیورمنٹ سے سرکاری خرچ میں 10 سے 20 فیصد کمی لائی جاسکتی ہے، ہم نجکاری کے عمل میں تیزی لائیں گے،توانائی، مالیاتی اور صنعتی شعبوں میں ایس او ایز کی منتقلی پر توجہ ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے سے 622 ارب کی لائبلیٹی کو منتقل کیا گیا، 12 کمپنیز نے پی آئی اے کی نجکاری میں دلچسپی لی، ملک کے بڑے ہوائی اڈوں کو بھی آؤٹ سورس کیا جائے گا، اسلام باد ایئرپورٹ کے لئے 15 جولائی تک بولیاں موصول ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی کے تحت پاورٹی گریجویشن کا اعلان کر رہے ہیں، تعلیمی وظائف پروگرام کے لئے 10 لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کی تقسیم بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں، بجلی چوری کے خلاف اقدامات سے 50 ارب کی بچت ہوگی، امید ہے سرکلر ڈیٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جی ڈی پی میں ٹیکس کا تناسب بڑھایا جائے گا، غیردستاویزی معیشت ختم کر کے ڈیجیٹائزیشن کو فروغ دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پر کھربوں روپے کی پنشن کا بوجھ ہے، موجودہ پینشن سکیم مین اصلاحات لائی جائیں گی، ملازمین کی پینشن ان کی پینشن کے آغاز سے ہی فلی فنڈڈ ہوگی، بینظیرانکم سپورٹ کے تحت لاکھوں خاندانوں کولاکھوں روپے دئیے جاتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے جو بجٹ پیش کیا اس کے مطابق بیرونی قرضوں پر سود کی رقم 1158 ارب روپے رکھی گئی ہے۔
بجٹ 2024-25 میں سبسڈی کا حجم 1509 ارب روپے رکھا گیا ہے، توانائی پر سبسڈی 800 ارب روپے رکھی گئی ہے۔
بجٹ میں حکومت کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 15424 ارب روپے، ایکسائز ڈیوٹی سے آمدنی کا تخمینہ 672 ارب روپے، سیلز ٹیکس سے آمدنی کا تخمینہ 3855 ارب روپے، کسٹم ڈیوٹی سے آمدن کا تخمینہ 1296 ارب روپے، ٹیکس کے علاوہ آمدن کا تخمینہ 2011 ارب روپے، پیٹرولیم لیوی سے وصولی کا تخمینہ 1080 ارب روپے، گیس انفرانسٹرکچر سرچارج سے وصولی کا تخمینہ 78 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
بجٹ میں برآمدات کا ہدف 32.7 ارب ڈالر، درآمدات کا ہدف 58 ارب ڈالر، ترسیلات زر کا ہدف 30.6 ارب ڈالر اور مالی خسارے کا تخمینہ 9600 ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔
نئے مالی سال میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 530 ارب، انفراسٹر کچر مںصوبوں کے لیے رقم 870 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ میں مجموعی اخراجات کا تخمینہ 24710 ارب روپے رکھا گیا اور جاری اخراجات کیلئے 22037 ارب روپے رکھے گئے۔
نئے مالی سال کیلئے ترقیاتی بجٹ 1221 ارب روپے، دفاعی اخراجات 2152 ارب روپے، قرضوں پر سود کی رقم 9775 ارب روپے اور اندورنی قرضوں پر سود کی رقم 8517 ارب روپے رکھی گئی ہے۔
حکومت نے توانائی کے لئے 253 ارب روپے مختص کئے ہیں، زرعی اسکیمز کے لئے 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
آئندہ مالی سال جی ڈی پی کی ترقی کا ہدف 3.6 فیصد ہے، افراط زر کی شرح کا ہدف 12 فیصد، آئندہ مالی سال بجٹ خسارے کا ہدف 6.9 فیصد ہے۔
ایف بی آر کی ٹیکس وصولی کا ہدف 12970ارب روپے ہے، جو رواں سال سے 38 فیصد زائد ہے۔
وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 7438 ارب روپے ہوگا، وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 3587 ارب روپے ہے.
وفاقی حکومت کی خالص آمدنی کا تخمینہ 9119 ارب روپے ہے، کل اخراجات کا تخمینہ 18877 ارب روپے ہے۔
پی ایس ڈی پی کے لئے 1400 ارب روپے مختص کیا گیا ہے، جبکہ مجموعی ترقیاتی بجٹ کا حجم 1500 ارب روپے ہے، دفاعی ضروریات کے لئے 2122 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے، جبکہ سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے 839 ارب روپے مختص ہیں۔
حکومت نے پنشن کے لئے 1014 ارب روپے مختص کئے ہیں۔
بجلی، گیس اور دیگر شعبوں پر سبسڈی کے لئے 1363 ارب روپے، پی ایس ڈی پی میں انفرااسٹرکچر کےلئے 824 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں انرجی سیکٹر کے لئے 253 ارب روپے، واٹر سیکٹر کے لئے 206 ارب روپے شامل ہیں۔
سماجی شعبے کے لئے 280 ارب روپے، آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے لئے 75 ارب روپے، سائنس اور آئی ٹی کے لئے 79 ارب روپے، زراعت کے لئے 50 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
زیادہ آمدن والوں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ ہوگا، نان فائلرز کے لئے کاروباری ٹرانزکشن کے ٹیکس میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
چھ لاکھ روپے آمدن پر ٹیکس چھوٹ برقرار رکھنے کی تجویز ہے، نان سیلریڈ افراد کے لئے ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح 45 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
پراپرٹی ہولڈنگ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد اور نان فائلرز کے لئے پراپرٹی ہولڈنگ پر ٹیکس 45 فیصد ہوگا۔
سکیورٹیز پر کیپٹل گین ٹیکس کی شرح 15 فیصد ہوگی، نان فائلرز کے لئے سکیورٹیز پر کیپٹل گین ٹیکس کی شرح 45 فیصد ہوگی۔
تمام کاروباروں کی سپلائی چین کے لئے ایڈوانس ٹیکس وصولی کو بڑھانے کی تجویز ہے، نان فائلرز سے ایڈوانس ود ہولڈنگ ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کر 20 سے 25 فیصد کردیا گیا۔
تمام موٹر گاڑیوں پر ٹیکس انجن کیپسٹی کے بجائے قیمت کے تناسب پر ہوگا۔
زیرو ریٹ استثنی کا خاتمہ کیا جارہا ہے، مختلف شعبوں میں استثنیٰ اور چھوٹ کا خاتمہ کردیا گیا ہے، کچھ کو ریڈیوس ریٹ اور کچھ کو اسٹینڈرڈ ٹیکس کیا جائے گا۔
ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کے ریٹیلزر پر ٹیکس 15 سے بڑھا کر 18 فیصد کردیا گیا۔
موبائل فونز کی درآمد پر 18 فیصد اسٹینڈرڈ ٹیکس کی تجویز ہے۔
تانبہ، کوئلہ، کاغذ اور پلاسٹک اسکریپ پر سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ کا اطلاق کیا گیا ہے۔
سگریٹ کی تیاری میں ایسیٹیٹ لو پر 44 ہزار روپے کلو پر ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔
سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 2 سے بڑھا کر 3 روپے کلو کردی گئی۔
نئے پلاٹس، رہائشی اور کمرشل پراپرٹی پر 5 فیصد ایکسائز ڈیوٹی نافذ کردی گئی۔
ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ کا خاتمہ کردیا گیا۔
سولر پینل انڈسٹری کے فروغ کے لئے درآمد پر رعایت کا اعلان کیا گیا۔
کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے کردی گئی، پنشن میں 15 فیصد اضافہ کردیا گیا، گریڈ ایک سے 16 تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کردیا گیا، گریڈ 17 سے 22 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 22 فیصد اضافہ کردیا گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک کی اقتصادی ترقی میں کراچی ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کراچی کے انفرا اسٹرکچر کع جدت کی طرف لے جایا جائے، اس کیلئے ایک جامع کراچی پیکیج کی تجویز ہے، جس کے ساتھ ساتھ حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص اور بینظیر آباد کیلئے بھی منصوبے مرتب کرنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کو پانی کی سپلائی بہتر بنانے کیلئے کے 4 منصوبے کے لئے خطیر رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، تاکہ اس اہم منصوبے کو تکمیل کی طرف لے جایا جائے۔