وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ مالی سال 2022-23 میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 0.2 فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی جب کہ روپے کی قدر 29 فیصد کم ہوئی تھی لیکن مالی سال 2023-24 میں پاکستان کی جی ڈی پی 2.38 فیصد رہی۔ مہنگائی کی شرح 48 فیصد سےکم ہوکر 11 فیصد تک آگئی ہے، جلد سنگل ڈیجٹ پر بھی آجائےگی، پالیسی ریٹ کو بتدریج نیچے آنا چاہیے، مہنگائی میں کمی کی وجہ سے ہی اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو کم کیا ہے۔
وزیر خزانہ نے منگل کو اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا کہ جی ڈی پی میں 2023-24 (جولائی-مارچ) کے دوران 2.4 فیصد اضافہ ہوا جو مالی سال 2022-23 کے ہدف 3.5 فیصد سے کم ہے۔ آئندہ سال پالیسی ریٹ (شرح سود) کو سنگل ڈیجٹ میں دیکھ رہے ہیں۔
اقتصادی سروے کے اجراء کی پریس کانفرنس میں محمد اورنگزیب نے کہا کہ مجھے تین سے ساڑھے تین ماہ ہوئے ہیں، ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے، کئی بار کہا ہے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانا چاہیے، جی ڈی پی کی گروتھ میں ایل ایس ایم میں مشکلات آئیں۔
اقتصادی سروے کے مطابق زرعی شعبے میں بمپر کراپس آئیں، ڈیری اور لائیو اسٹاک نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ریونیو وصولی میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔
اقتصادی سروے میں کہا گیا کہ مالی سال کے دوران فی کس آمدن 129ڈالر کے اضافے کے بعد 1680 ڈالر ہوگئی ہے۔ پچھلے سال فی کس آمدن 1551 ڈالر رہ گئی تھی۔
اقتصادی سروے کے مطابق روپے کی قدر میں استحکام دیکھا جا رہا ہے، نگراں حکومت میں ہنڈی حوالہ اسمگلنگ کو روکا گیا، اسٹیٹ بینک نے اہم کردار ادا کیا، کوشش ہے سٹہ بازی دوبارہ ملک میں نہ آئے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 2 ماہ کی درآمدات کے لئے تھے، آج زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالرز ہیں، اس کا مکمل سہرا اسٹیٹ بینک کے سر ہے، آئندہ مالی سال بہت اچھا شروع ہوگا، افراط زر 48 فیصد تک پہنچ چکا تھا، لیکن اب مئی میں 11.8 فیصد کا عدد آیا ہے، میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے، اسی کی وجہ سے بنیادی مہنگائی کے ساتھ ساتھ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کی وجہ سے ہی گزشتہ روز پالیسی ریٹ میں کمی کی گئی، مانیٹری پالیسی کا اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر ہے اور اندازہ ہے کہ مہنگائی کا عدد اگلے مالی سال کے آغاز میں 10 فیصد سے بھی کم ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پالیسی ریٹ میں بتدریج کمی آنی چاہیے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ سال مانیٹری پالیسی کو سنگل ڈیجٹ میں دیکھ رہے ہیں، پالیسی ریٹ بتدریج نیچے آنا چاہیے، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری ہے، اصلاحات پر ہم نے کمٹمنٹ کیا ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی ہمیں بڑھانا ہے، ایس او ایز کو پبلک سیکٹر میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں مثبت پیش رفت ہورہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی 50 سال میں کم ترین ہونے کی بات درست ہے، پی ایس ڈی پی میں اہم نوعیت کے منصوبوں کو فنڈز دیں گے، اب ہمارے ہاتھ بندھ چکے ہیں، کم اہمیت کے منصوبوں کو شامل نہیں کرسکتے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ دو ایسے سیکٹرز ہیں، جن کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں، زراعت اور آئی ٹی کا آئی ایم ایف سے تعلق نہیں، چین میں ڈیری اور لائیو اسٹاک کی بڑی مارکیٹ ہے، ’پاسکو کی تنظیم نو کرنے جارہے ہیں، انفورسمنٹ پر لوگ یقین نہیں رکھتے‘۔
انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں ریفارمز کرنا ہیں، اس میں دو پہلو ہیں، اصلاحات پر عمل درآمد کروانا ہے، لیکیجز کو بلاک کرنا ہے، 500ارب روپے چوری کا تخمینہ ہے، ڈسکوز کی گورننس کو ٹھیک کرنا ہے، ڈسکوز پبلک سیکٹر میں نہیں رہ سکتیں۔
اقتصادی سروے 2024 کے مطابق رواں سال آئی ٹی سے 20 ہزار کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں، آئی ٹی کی برآمدات کا حجم 2 ارب 28 کروڑ ڈالر رہا، آئی ٹی کے شعبے میں 35 کروڑ ڈالر زرمبادلہ آیا، ملک میں 13 کروڑ 50 لاکھ افراد انٹرنیٹ استعمال کررہےہیں، ٹیلی کام صارفین کی تعداد 19 کروڑ 46 لاکھ سے بڑھ گئی۔
سروے کے مطابق ملک میں کل 263 یونیورسٹیاں ہیں، ملک میں خواندگی کی شرح 62.8 فیصد رہی، تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.5 فیصد حصہ خرچ ہوا۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنانےکے اصول پر آگے بڑھیں گے، ٹیکس کلیکشن کو ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لے جارہے ہیں، انسانی مداخلت کم کریں گے، ٹیکس وصولی کر کے دکھانی ہوگی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت دیکھے گی کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کیوں کام نہیں کرتا۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ہر کسی کو ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا کیونکہ فلاحی کاموں کے ذریعے اسکول، اسپتال، کالج اور یونیورسٹیاں چل سکتی ہیں لیکن یہ ملک کو نہیں چلا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ ملک صرف ٹیکس کے ذریعے چل سکتا ہے، اس حوالے میری نظر میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔
وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ کیپسٹی چارجز پاکستان کی ساورن کمٹمنٹس ہیں، ان کا احترام کرنا ہوگا، کیپسٹی چارجز کا اژدھا بجلی کا استعمال بڑھا کر قابو کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بجلی کا استعمال بڑھے گا تو کیپسٹی چارجز کا بوجھ بھی کم ہوگا، نیپرا کی رپورٹ کے مطابق تمام ڈسکوز کے صارفین اوور بلنگ کا بھی شکار ہیں۔
اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق مالی سال 2024 میں عوامی قرضہ 67 ہزار 5 سو 25 ارب روپے تک پہنچ گیا، جو ملک کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 74.8 فیصد ہے۔
عوامی قرض (Public Debt) سے مراد وہ قرض ہے جو کوئی ملک اپنے عوام اور کمپنیوں، دوسرے ملک کے باشندوں اور کمپنیوں یا دوسری حکومتوں سے حاصل کرتا ہے۔
اس طرح کے قرضوں میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ انہیں عوامی آمدنی (Public Revenue) سے ادا کرے۔
سروے کے مطابق مارچ 2024 تک ملک کا مقامی قرضہ 43 ہزار 4 سو 32 ارب روپے اور بیرونی قرضہ 24 ہزار 93 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔
مالی سال 2024 کے پہلے نو مہینوں کے دوران عوامی قرضوں میں گزشتہ سال کی اسی مدت میں ہونے والی نمو کے مقابلے میں 54 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، جس کی بنیادی وجہ شرح مبادلہ میں استحکام ہے۔
اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال 2024 میں جولائی تا مارچ عوامی قرضہ 4 ہزار 6 سو 44 ارب روپے رہا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 10 ہزار 5 ارب روپے تھا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں میں ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت نہیں کر سکتے، اسٹیل ملز کی بحالی کا کوئی امکان نہیں، صرف اسکریپ میں بکے گی۔ اسٹیل ملز میں لوگ بیٹھے ہیں، گیس بھی استعمال ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پی آئی اے نجکاری سے متعلق نتیجہ جولائی اگست تک دیکھ لیں گے، ہم صرف اسلام آباد ائیرپورٹ کی نجکاری تک نہیں رکیں گے۔
اقتصادی سروے کے مطابق زرعی شعبے میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے اقتصادی شرح نمو میں اضافہ ہوا، مالی سال 24-2023 کے دوران زراعت کے شعبے میں ترقی کی شرح نمو 6.25 فیصد رہی۔ زراعت کے شعبے میں یہ گزشتہ 19 سال کے دوران سب سے زیادہ ترقی ہے۔
سروے میں بتایا گیا کہ گندم چاول اور کپاس کی فصلوں میں بہتری سے زراعت کے شعبے میں ترقی ہوئی اور مالی سال 24-2023 کے دوران زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 6.25 فی صد رہی ۔
مالی سال 24-2023 کے دوران کاٹن کی پیداوار میں 108 فیصد کا اضافہ ہوا اور 10.2 ملین بیلز کی پیداوار ہوئی۔
چاول کی پیداوار میں 34.8 فیصد کا اضافہ ہوا اور 9.87 ملین ٹن کی پیداوار ہوئی، گندم کی پیداوار میں بھی 11.6 فیصدکا اضافہ ہوا اور 31.44 ملین ٹن کی پیداوار ہوئی۔
لائیو اسٹاک کا زراعت کے شعبے میں حصہ 60.84 فیصد رہا جب کہ جی ڈی پی میں لائیو اسٹاک کی شرح 14.63 فیصد رہی ،لائیو اسٹاک کے شعبے میں ترقی کی شرح نمو 3.89 فیصد رہی۔
اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں ایک سال میں گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، ایک سال کے دوران ایک لاکھ گدھےبڑھ گئے، گدھوں کی تعداد 59 لاکھ تک پہنچ گئی، گزشتہ مالی سال ملک میں گدھوں کی تعداد 58 لاکھ تھی، سال2021-22 میں گدھوں کی تعداد 57 لاکھ تھی، 2 سال میں گدھوں کی تعداد میں 2 لاکھ کا اضافہ ہوا۔
اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سے قبل ایف بی آر کی وصولی کب 30 فیصد بڑھی، ہم آئندہ سال بھی وصولی بڑھا سکتے ہیں، این ای سی کے فیصلوں پر نظرثانی کی ہے۔
اقتصادی سروے کے مطابق قرضوں کی ادائیگی کے شیڈول پر عمل کریں گے، آئندہ سال قرضوں کی ادائیگی کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا، مائیکرو اکنامک استحکام کی ضرورت ہے، آئندہ مالی سال پانڈا بانڈز کی فروخت کی جاسکتی ہے۔