اتوار کی شام سوا چھ بجے مقبوضہ کشمیر میں ہندو یاتریوں کی بس پر فائرنگ سے 9 ہلاکتوں کی اعلیٰ سطح پر تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ یہ واقعہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع رائسی میں رونما ہوا۔ بدنصیب یاتری ماتا وشنو دیوی کے مندر جارہے تھے۔
مقبوضہ کشمیر کی پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے کشمیری علیٰحدگی پسندوں پر اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ حملے میں 33 افراد زخمی بھی ہوئے۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق فائرنگ کے نتیجے میں بس پر ڈرائیور کا کنٹرول نہ رہا اور وہ ایک گہرے نالے میں جا گری۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی ایک ٹیم موقع پر پہنچ گئی ہے۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق فوج بھی ملزمان کا سراغ لگاکر انہیں گرفتار کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے اس واقعے میں ہلاک ہونے والے ہر فرد کے اہلِ خانہ کے لیے 10 لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ ہر زخمی کو 50 ہزار روپے دیے جارہے ہیں۔
امریکی میڈیا نے اس واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ”بھارت کے زیرِ تصرف کشمیر“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارا ہے کہ امریکی میڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے سے متعلق مودی سرکار کی طرف سے آئین میں کی جانے والی ترمیم کو تسلیم نہیں کیا اور اب بھی اِسے متنازع علاقہ تصور کرتے ہیں۔