پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کا ارمان رہتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے خانہ کعبہ کو دیکھیں اور زندگی میں ایک بار حج اور عمرہ کی سعادت ضرور حاصل کریں۔
تاہم اس مقدم مقام کے حوالے سے چند ایسے بھی حقائق ہیں جو کہ دلچسپی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔
رواں سال حج کی سعادت تقریبا 20 سے 21 لاکھ مسلمان حاصل کر سکیں گے، جبکہ سعودی اتنظامیہ کی جانب سے 3 لاکھ سے زائد غیر قانونی عازمین حج کے خلاف بھی کاروائی کی گئی ہے۔
اس سب میں بیت اللہ شریف کے حوالے سے چند حقائق ہیں جو کہ عازمین حج بھی ہو سکتا ہے نہیں جانتے ہوں۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق خانہ کعبہ یعنی بیت اللہ کی اہم ترین چیزوں میں باب کعبہ بھی شام ہے، جب حضرت ابراہیم ؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کیا تو ان دنوں کوئی باب موجود نہیں تھا۔
خانہ کعبہ کے اوپر سے کوئی جہاز یا پرندہ کیوں نہیں گزر سکتا؟
خانہ کعبہ میں اس وقت داخلے کے دو راستے تھے ایک مشرق کی طرف سے اور دوسرا مغرب کی طرف سے، جو کہ کھلے رہتے تھے۔ کئی سال تک خانہ کعبہ بغیر دروازوں کے ہی رہا تھا، جبکہ بادشاہ تبع کے دور میں پہلی بار خانہ کعبہ کے دروازے بنائے گئے، اور چابی اور غلاف بھی بنایا گیا۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق قریش مکہ کی جانب سے آشزدگی اور سیلاب کے واقعات کے بعد خانہ کعبہ کی مرمت کا کام شروع کیا گیا تھا، اسی دوران مغربی باب کو بند کر دیا گیا تھا اور صرف مشرقی باب کو ہی کھولے رکھا، اس وقت سے لے کر آج تک 2 پٹوں پر مشتمل 14 ہاتھ لمبا باب خانہ کعبہ کی زینت ہے۔
اس حوالے سے سعودی محقق الھاشمی کی جانب سے بھی بتانا تھا کہ خانہ کعبہ کی دوسری بار تعمیر عبداللہ بن زبیر کے دور میں ہوئی تھی، جبکہ عباسی خلیفہ المقتفی نے 551 ھ کے دور میں باب کعبہ بنایا گیا، بعدازاں یمنی خلیفہ مظفر نے 659 ھ میں خانہ کعبہ کے لیے چاندی سے تیار کردہ دروازہ عطیہ کا۔ جبکہ کچھ عرصے بعد ہی شاہ ناصر حسین نے 761 ھ میں ساگوان کی لکڑی سے خانہ کعبہ کا باب تیار کروایا تھا۔
اس کے بعد ترک خلیفہ سلیمان القانونی نے لکڑی کا دروازہ تیار کرایا، جس پر سونے اور چاندی کی قلع کاری کی گئی تھی، اور اس پر آیت کریمہ تحریر کرائی۔
حج سے قبل غلاف کعبہ کو زمین سے 3 میٹر اونچا کیوں کرتے ہیں؟
العربیہ کے مطابق اس کے بعد سنہ 1045ھ میں سلطان مراد کی جانب سے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کی گئی، اسی دوران نیا باب بھی نصب کیا گیا، اس دروازے کی دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ سونے اور چاندی سے تیار کیا گیا تھا۔ جبکہ 1119ھ میں باب کعبہ کی دوبارہ تجدید کی گئی۔
دوسری جانب موجودہ آل سعود دور حکومت میں باب کعبہ 10 ذی الحج 1366 ھ میں تبدیل کیا گیا، جبکہ نئے باب کی موٹائی ڈھائی سینٹی میٹر اور لمبائی 3 اعشاریہ 10 میٹر رکھی گئی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس بار باب کعبہ المونیم سے تیار کیا گیا تھا، جس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا تھا۔
یہ باب آج بھی خادم الحرمین شریفین میوزیم میں موجود ہے، جبکہ دوسرا باب شاہ خالد کے دور میں بنوایا گیا، حیرت انگیز طور پر شاہ خالد کے دور میں 2 دروازے بنانے کے احکامات دیے گئے تھے۔
جن کے نام ’خارجی باب کعبہ‘ اور دوسرا ’باب التوبہ‘ تھا، جسے خانہ کعبہ کی چھت تک جانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس باب میں لکڑی کی 10 سینٹی میٹر چوری تختیاں لگائی گئیں۔
جبکہ تکمیل کے بعد سونے کا پانی چڑھایا گیا تھا، جبکہ تیاری میں 13 ملین ریال خرچ ہوئے، باب کعبہ کی تنصیب 1399 ھ میں ہوئی جبکہ آج تک یہی باب کعبہ میں موجود ہے۔