بھارت قدیم رسوم و رواج کا معاشرہ ہے۔ ملک کے طول و عرض میں انتہائی قبیح رسوم اب تک جاری ہیں۔ کہیں کوئی ایسا قبیلہ رہتا ہے جس میں جسم فروشی بالکل جائز ہے اور عورت کی عزت فروخت کرنے میں باپ، بھائی، بیٹے سبھی اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
بہت سے علاقوں میں عورت کا احترام برائے نام ہے۔ بہن سے شادی کو جائز سمجھنے والی قبائلی برادریاں بھی ہیں۔ ہماچل پردیش اور اترا کھنڈ میں بھی ہٹی نام برادری رہتی ہے جس میں تین چار بھائی مل کر ایک عورت کو بیوی کے طور پر رکھتے ہیں۔ عورت کی شادی تو کسی ایک مرد سے ہوتی ہے مگر اُس کے تمام بھائی اُسے بیوی کی حیثیت سے برتتے ہیں۔
ہٹی برادری کے لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کسی بھی قبیح رسم کو درست قرار دینے کے لیے انسان دو طرح کے جواز گھڑتا ہے۔ ہٹی برادری کا بھی ہی معاملہ ہے۔ ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جن علاقوں میں یہ برادری رہتی ہے وہاں غربت بہت زیادہ ہے۔ باپ کی چھوڑی ہوئی زرعی اراضی کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے سارے بھائی مل کر ایک عورت کو گھر میں رکھ لیتے ہیں اور وہی اُن کے لیے بچے پیدا کرتی ہے۔
مہا بھارت میں دروپدی کا ذکر ملتا ہے جس نے پانچ پانڈو بھائیوں سے کرکے اُنہیں کوروؤں سے لڑنے کے لیے تیار کیا تھا۔ ہٹی قبیلے کے لوگ بھی دروپدی کے پیروکار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاندووں نے کچھ مدت تک اُن علاقوں میں قیام کیا تھا جہاں آج ہٹی قبیلے کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہندوؤں کی مقدس کتب میں جس بڑی لڑائی یعنی مہا بھارت کا ذکر ملتا ہے اُس کا میدان موجودہ بھارت کی ریاست ہریانہ میں پایا جاتا ہے۔ اِسے کروک شیتر کہتے ہیں۔
بیک وقت کئی بھائیوں کی ایک ہی بیوی ہونے کی رسم کو ”جوڑی داراں پرتھا“ کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اِسے polyandry کہا جاتا ہے۔ یہ قبیح رسم اب کمزور ہوچلی ہے مگر اب بھی ہماچل پردیش کے ضلع سِرمور اور اُس سے ملحق علاقوں میں 400 سے زائد خاندان یعنی ہزاروں گھرانے اِس رسم کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ حکومت اِن لوگوں میں غیرت و شعور پیدا کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں کرتی۔ مذہبی اور سماجی تنظیمیں بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔