جوڈیشل کمیشن آف پاکستان پاکستان لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس کے منصب پر ترقی دینے کے حوالے سے غور و خوض کر رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس شاہد بلال حسن کی سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ترقی کے بعد سینیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر جسٹس عالیہ نیلم ہیں۔
سینیر موسٹ جج کو چیف جسٹس بنانا آئینی تقاضا تو نہیں تاہم 2010 میں اٹھارہویں ترامیم کے نفاذ کے بعد سے اب تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اس ترمیم سے قبل بعض جونیر ججز کو سینیر سے اوپر لاکر چیف جسٹس بنایا جاتا رہا ہے۔ جسٹس اعجاز فضل خان پشاور ہائی کورٹ کے سینیر موسٹ جج نہیں تھے مگر انہیں ترقی دے کر پشاور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعہ کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں لاہور ہائی کورٹ کے لی چیف جسٹس کے انتخاب و تقرر کے حوالے سے سیرحاصل مشاورت ہوئی۔ جسٹس یحیٰ آفریدی نے تجویز کیا کہ ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو سینیارٹی کے باوجود سپریم کورٹ کے لیے ترقی دی جائے تو پھر بعد میں بھی اُسے سپریم کورٹ کا جج مقرر نہ کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان نے بتایا کہ مشاورت کے دوران طے کیا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے دو سینیر موسٹ ججوں شجاعت علی خان اور علی باقر نجفی کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر ترقی دینے پر بوجوہ غور نہیں کیا جاسکتا۔
جوڈیشل کمیشن نے جسٹس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس بنانے کا اصولی فیصلہ کیا ہے اور ان کی حلف برداری تک جسٹس شجاعت علی خان عبوری چیف جسٹس کی حیثیت سے کام کرسکتے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے لیے چیف جسٹس کے انتخاب کے لیے اجلاس جلد بلایا جائے گا۔ اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیرِ قانون نے جسٹس عالیہ نیلم کے تقرر پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اب بھی جسٹس علی باقر نجفی کو لاہور ہائی کورٹ کا جسٹس مقرر کرانے کے لیے مہم چلارہی ہے۔ جسٹس شجاعت علی خان 26 اپریل 2026 کو ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ جسٹس علی باقر نجفی کو 14 ستمبر 2025 کو ریٹائر ہونا ہے۔ جسٹس عالیہ نیلم 11 نومبر 2028 کو ریٹائر ہوں گی۔ جسٹس عالیہ نیلم کی مہارت کرمنل مقدمات کے حوالے سے ہے۔