’میں صبح نماز کے لئے مسجد کی طرف گھر سے نکلنے والا تھا کہ اس دوران دروازے پر کسی نے دستک دی او جب میں باہر نکلا تو میرے بھائی کے سسرال والے کھڑے تھے۔ میں نے حیرت سے ان سے خیریت دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ ابرار اور ان کی بیوی کو باہر بلاو ہمارا ان کے ساتھ کام ہے۔ میں نے اپنے بھائی ابرار او بھابھی کو بلایا اور باہر آتے ہی انہوں نے فائرنگ کرکے دونوں کو قتل کردیا۔‘
یہ کہنا تھا پشاور کے علاقے متھرا پنام ڈھیرئی کے رہائشی مقتول ابرار اللہ کے چھوٹے بھائی زاہد اللہ کا جو اپنے بھائی کی فاتحہ خوانی کے لئے حجرے میں بیٹھے تھے۔ زاہد نے بتایا کہ ابرار نے دو سال قبل اپنے ماموں کی بیٹی سے پسند کی شادی کی تھی جس پر لڑکی کے گھر والے خوش نہیں تھے اس لئے ابرار اپنی بیوی کے ساتھ دو سال تک پشاور شہر میں روپوش رہا۔ چند ماہ قبل دونوں خاندانوں کے مابین عدالت میں راضی نامہ ہوا تھا جس کے بعد ابرار اپنے بیوی اور بیٹی کے ہمراہ گھر واپس لوٹ آیا تھا۔
زاہد نے بتایا کہ ملزمان نے غیرت کے نام پر ان کے بھائی اور بھابھی کو قتل کیا ہے جس کے خلاف انہوں نے تھانہ ناصر باغ میں ایف آئی آر درج کی ہے۔
اس حوالے سے جب ایس ایس پی تھانہ ناصر باغ جواد اسحاق سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ غیرت کے نام پر پیش آنے والے اس واقعے میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے اب تک ایک ملزم کو گرفتار کیا ہے جبکہ دیگر ملزمان کی گرفتاری بھی جلد عمل میں لائی جائے گئی۔ ایس ایس پی جواد اسحاق کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے حالیہ واقع کے بعد گزشتہ چھ سالوں کے دوران ان کے ڈویژن میں قتل و غارت کے نام پر رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد چھ ہوگئی ہیں جس میں ان کے بقول ملوث ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایس ایس پی ناصر باغ سمجھتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات معاشرے میں انسانی حقوق سے متعلق کم علمی ہے پختون معاشرے میں اگر کوئی لڑکی گھر والوں کی اجازت کے بغیر پسند کی شادی کرتی ہے تو اس عمل کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور لوگ لڑکی کے گھر والوں کو طعنے دیتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔پشاور پولیس کی طرف سے دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پشاور میں غیرت کے نام پر 126 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ رواں سال کے پانچ ماہ کے دوران 12 افراد کو قتل کیا گیا۔
پولیس کے مطابق پشاور میں 2023 میں 17، 2022 میں 37، 2021 میں 28 جبکہ 2020 میں 22 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پانچ سال میں غیرت کے نام پر قتل میں ملوث 137 افراد کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق اور خواتین کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے غیر سرکاری تنظموں کے مطابق پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی روک تھام کے لئے 2004 میں قانون بنایا گیا ہے لیکن اس پر عملدر آمد نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات یہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں خواتین کی حقوق کے لئے والی غیر سرکاری تنظیم د حوا لور کی چیئر پرسن خورشید بانو نے بتایا کہ پشاور میں رواں سال غیرت کے نام قتل و غارت کے واقعات پولیس کے اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ زیادہ تر علاقوں میں اس قسم کے واقعات کو چھپایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ تعداد کم بتائی جارہی ہے۔ وہ سمجتھی ہیں کہ اکثر واقعات میں لڑکا اور لڑکی کو قتل کرنے کے بعد دونوں خاندان والے مقتولین کو معاف کردیتے ہیں جس کے باعث قاتل سزا سے بچ جاتا ہے۔