اچھے ہمسائے سبھی کو پسند ہوتے ہیں مگر طاقتور یا مضبوط پڑوسی کسی کو پسند نہیں ہوتا۔ چین اور بھارت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ بھارت نے چین کے مقابل آنے کی بھرپور کوشش جاری رکھی ہے تاہم اُسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکتی۔
اب نریندر مودی تیسری بار وزیرِ اعظم بنتے وقت برائے نام اکثریت والی حکومت سنبھالیں گے۔ اس پر چین بہت خوش ہے۔ چین کے سرکاری ملکیت والے اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ نریندر مودی کا واضح اکثریت سے محروم ہو جانا چین کے حق میں جاتا ہے کیونکہ اب بھارتی معیشت چین کے مقابل آنے کی بھرپور کوشش نہیں کر پائے گی۔
گلوبل ٹائمز نے یہ بھی لکھا ہے کہ نریندر مودی غیر واضح اکثریت کے ساتھ حکومت چلانے کی صورت میں سخت تر معاشی فیصلے نہیں کرپائیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی بھرپور اکثریت کی حامل ہونے پر زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرتی رہی ہے۔ اب وہ کوئی بھی ایسا ویسا اقدام کرنے سے قبل نتائج کے بارے میں ضرور سوچے گی۔
بھارتی معیشت نے ایک عشرے کے دوران غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا میں ’میڈ اِن انڈیا‘ نے ’میڈ اِن چائنا‘ کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ ایک عشرے کے دوران ہی بھارت میں سیاسی اختلافات کو بھی بڑھاوا ملا ہے۔
چینی قیادت نے بھارت میں اپوزیشن کے مضبوط ہوکر ابھرنے کو اپنے لیے نعمت سمجھتے ہوئے حکمتِ عملی تبدیل کی ہے۔ کمزور مخلوط حکومت بننے کی صورت میں نریندر مودی چین کو منہ دینے کے قابل نہیں رہیں گے۔
بھارت نے چین کو ناراض کرنے والے اقدامات سے اب بھی گریز نہیں کیا۔ چینی قیادت تائیوان کو اپنا باغی صوبہ قرار دیتی ہے۔ بھارت کے وزیرِ اعظم نے انتخابی فتح پر تائیوان کے صدر کی طرف سے مبارک باد کے پیغام کا بروقت اور مثبت جواب دیا ہے۔ اِس پر چین نے سفارتی سطح پر احتجاج کیا بھی کیا ہے۔ معاملہ تھوڑا سا بگڑ گیا ہے کیونکہ چین کے اعتراض پر امریکا بھی میدان میں آگیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت کسی بھی ملک سے تعلقات استوار رکھنے کے معاملے میں آزاد۔ امریکا کا بیان علامتی نوعیت کا ہے یعنی چین کو پیغام دیا ہے کہ وہ بھارت اور تائیوان کے معاملے میں محتاط رہے۔