آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ میں امریکا کی نمائندگی کرنے والے پاکستانی نژاد فاسٹ بولر علی خان نے پاکستان کے خلاف میچ میں شاندار بولنگ کی بدولت جیت میں اپنا حصہ ڈالا، ان کے کیریئر پر نظر ڈالتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع اٹک کے شہر فتح جنگ میں پیدا ہونے والے علی خان گلیوں میں ٹیپ بال کرکٹ کھیلتے تھے تاہم ان کو یہ پتہ نہ تھا کہ وہ ایک دن امریکا کی جانب سے کھیلتے ہوئے پاکستانی مڈل آرڈر کے سب سے اہم بلے باز فخر زمان کو آؤٹ کریں گے۔
گذشتہ روز انہوں نے فخر زمان کی وکٹ حاصل کر کے اور بہترین ڈیتھ بولنگ کا مظاہرہ کر کے ایسا ہی کیا اور پاکستانی بلے بازوں پر موجود دباؤ برقرار رکھا، جس کی بدولت امریکا کی ٹیم کو کامیابی حاصل ہوئی۔
فتح جنگ میں کرکٹ کھیلتے وقت بہت چھوٹی عمر میں ہی ان کے بھائی نے انہیں ’بڑے لڑکوں‘ کے ساتھ کھیلنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ علی خان تیز گیند کرواتا تھا، ’بڑے لڑکوں‘ کے ساتھ کھیلنے اور پھر انہیں حیران کرنے کی یہ عادت علی کے امریکا منتقل ہونے کے بعد سے لے کر آج تک ان کے کرکٹ کے سفر کا خاصہ رہی ہے۔
علی خان سنہ 2010 میں جب اپنے خاندان کے ہمراہ امریکا منتقل ہوئے تو انہوں نے ایک مقامی کرکٹ کلب کی جانب سے کھیلتے ہوئے صرف ’تیز بولنگ کی‘ اور ’بیٹرز کے ڈنڈے اُڑا دیے۔‘
علی خان نے بی بی سی سے ڈیلاس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں امریکا پہنچا تو میرا کرکٹ کے حوالے سے خواب ٹوٹ چکا تھا کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ امریکا میں کرکٹ بھی ہوتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد میں نے مقامی سطح پر کرکٹ کھیلنا شروع تو کر دی لیکن بڑے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے کی لگن ایسی تھی کہ انہوں نے فیس بک کے ذریعے یو ایس اوپن کرکٹ ٹورنامنٹ کی مرکزی منتظم سے رابطہ کرکے ان سے درخواست کی کہ وہ بھی اس ٹورنامنٹ میں کھیلنا چاہتے ہیں۔
اس ٹورنامنٹ میں علی خان کی کارکردگی اتنی اچھی رہی کہ انہیں امریکا کی دوسری ریاستوں سے بلاوے آنے لگے تاہم اس دوران یو ایس کرکٹ نے اعلان کیا کہ وہ ایک کیمپ لگا رہے ہیں جس کے ذریعے امریکا کی ٹیم کے لیے سیلیکشن ہو گی جبکہ سیلیکٹرز میں کورٹنی والش بھی شامل تھے۔
علی کے مطابق یہ ٹرائلز بہت سخت تھے اور کُل 100 سے زیادہ لڑکے تھے جن میں سے 15 سیلیکٹ ہونے تھے، یہاں علی کو پہلی مرتبہ امریکا کی قومی ٹیم کی نمائندگی کے لیے سیلیکٹ کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اگلے ہی سال علی کو کیریبیئن پریمیئر لیگ (سی پی ایل) کی ٹیم ایمازون واریئرز نے سیلیکٹ کیا اور وہ اپنے پہلے ہی میچ کی پہلی گیند پر سابق سری لنکن کپتان کمار سنگاکارا کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوئے، تب تک کمار سنگاکارا انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہو چکے تھے۔
علی خان نے بتایا کہ کمار سنگاکارا کو آؤٹ کرنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا تھا کہ وہ واقعی اس کریئر میں آگے بڑھ سکتے ہیں تاہم انہیں اس سیزن میں صرف ایک ہی میچ مل سکا۔
علی خان کو 2018 میں اس وقت کامیابی ملی جب ویسٹ انڈیز کے سابق کھلاڑی ڈوین براوو یو ایس اوپن کھیلنے آئے اور وہ علی کی ٹیم کا حصہ تھے اور انہیں نوجوان فاسٹ بولر میں کچھ الگ نظر آیا اور علی خان کو اپنی ٹیم ٹرینیبگیو نائٹ رائڈرز کے لیے سیلیکٹ کیا۔
علی اس سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولرز کی فہرست میں دوسرے نمبر پر تھے، جس کے بعد ان کے لیے دیگر لیگز کے دروزے بھی کھلنے لگے، ایک جانب انہیں لیگز میں کھیلنے کا موقع مل رہا تھا تو دوسری جانب امریکا کی ٹیم ڈویژن فائیو سے ترقی کرتے کرتے اب ڈویژن ون اور پھر ورلڈ کپ تک آن پہنچی تھی۔
علی خان نے بتایا کہ ’اس پورے سفر میں سخت محنت کا عمل دخل اور ظاہر ہے کہ جو مقدر میں ہو اور اللہ چاہے ہوتا وہی ہے۔‘
علی خان فتح جنگ اور راولپنڈی میں گزرے اپنے بچپن کے دنوں میں کرکٹ کھیلنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’اس وقت تو یہی تھا کہ بس شوق سے کھیل رہے تھے، جہاں جہاں کرکٹ آئی وہاں چلے گئے، اسکول چھوڑ دیا، ٹیوشن پڑھنے نہیں گئے، گھر سے مار پڑی کے لیٹ کیوں آئے۔ گھر والے چاہتے تھے کہ ہم پڑھیں لیکن ہمارا شوق کرکٹ کا تھا، لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ پروفیشنل کرکٹ کھیلیں گے۔
’شروع سے ہی فاسٹ بولر تھا، تیز بھاگ کے آنا اور تیز پھینکنا یہ نہیں پتا ہوتا تھا کہ گیند کہاں جا رہی ہے بس تیز ہونی چاہیئے۔‘
دو ایسے بولرز ہیں جنھیں وہ بچپن سے ہی فالو کرتے ہیں، اگر آپ نے گذشتہ روز ان کی بولنگ دیکھی ہے تو آپ حیران نہیں ہوں گے کہ وہ دونوں کون ہیں، ایک تو شعیب اختر ہیں کیونکہ جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو اس دور میں شعیب اختر مانے جاتے تھے جس طرح وہ بھاگ کر آتے تھے، لمبے بال اور دہشت پھیلائی ہوئی تھی، دوسرے وقار یونس تھے کیونکہ ان کے یارکرز بہت خطرناک ہوتے تھے اور مجھے بھی یارکرز ہی پسند ہیں۔ دونوں کو دیکھ کر میں متاثر ہوتا تھا اور دل کرتا تھا کہ جیسے وہ بولنگ کرتے ہیں ویسے ہی جا کر میں بھی بولنگ کروں۔
پاکستان کے خلاف جیت یقیناً صرف علی خان ہی نہیں پوری امریکی ٹیم اور امریکا میں کرکٹ کے فروغ کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہو گی۔
امریکا میں بہت سارے لوگوں نے گراؤنڈز بنائے ہیں، ٹریننگ سہولیات اور ان ڈور ٹریننگ سینٹرز بن گئے ہیں، ہم نے دیکھا ہے کہ بین الاقوامی کھلاڑی بھی یہاں آ کر کھیل رہے ہیں، جیسے میجر لیگ کرکٹ میں بہت سارے کھلاڑی آتے ہیں، یہ اب دنیا کی بہترین لیگز میں سے ایک بن چکی ہے، تو اس لیے یہاں کرکٹ کا مستقبل روشن ہے۔